جوہری ہتھیاروں کی روک تھام: روس، امریکہ سرد جنگ کے زمانے کے معاہدے سے دستبردار


Putin and Trump in 2017

روسی حکام نے اعلان کیا ہے کہ سویت یونین اور امریکہ کے درمیان طے پانے والی ’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘ یعنی درمیانے فاصلہ تک مار کرنے والے جوہری میزائلوں کی روک تھام سے متعلق معاہدہ اب ختم ہوگیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ امریکہ ایک ایسے معاہدے کا حصہ نہیں رہے گا جس کی دوسرے فریق خلاف ورزی کریں۔

یہ معاہدہ 1987 میں امریکی صدر رانلڈ ریگن اور سوویت سربراہ میکائل گورباچوف کے درمیان طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت 500 سے 5500 کلومیٹر تک مار کرنے والے جوہری میزائلوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

اس سال کے آغاز پر امریکہ اور نیٹو نے روس پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا کہ روس نے ایک نیا میزائل تیار کیا ہے، تاہم روس اس کی تردید کر چکا ہے۔

امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ روس نے 9 ایم 729 نامی میزائل (جنھیں نیٹو ایس ایس سی 8 کے نام سے جانتی ہے) نصب کر دیے ہیں۔ اس الزام کو پھر نیٹو ممالک کے سامنے رکھا گیا اور تمام نے امریکی دعوؤں کی حمایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’امریکہ روس پر بھروسہ کر سکتا ہے، نہ ہی کرے گا‘

روس کی جنگی مشقیں تین لاکھ فوجی شریک

’جوہری جنگ رکوانے والا‘ روسی ہیرو چل بسا

Components of SSC-8/9M729 cruise missile system are on display during a news briefing, January 2019

ایس ایس سی 8/9 ایم 729 کروز میزائل

فروری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اگر 2 اگست تک روس نے معاہدے کی تعین کردہ حدود میں واپس نہ آیا تو امریکہ اس سے دستبردار ہوجائے گا۔

اس کے فوری بعد روسی صدر پوتن نے معاہدے کی اپنے ملک پر لاگو تمام ذمہ داریوں کو بھی معطل کر دیا تھا۔

خطرات کیا ہیں؟

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ اس طرح جوہری جنگ کے خلاف ایک اہم ترین پیش رفت ’رول بیک‘ ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے بلسٹک میزائلوں کا خطرہ کم نہیں بلکہ بڑھنے کا امکان ہے۔‘ اس کے علاوہ انھوں نے تمام فریقوں کو ’بین الاقوامی آرمز کنٹرول کے لیے نیا متقفہ راستے‘ تلاش کرنے کی تائید بھی کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ معاہدہ ناکام ہو جاتا ہے تو روس، امریکہ، اور چین کے درمیان ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔

عسکری امور کے ایک روسی ماہر پیول فلیگنہاور نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب چونکہ یہ معاہدہ ختم ہو رہا ہے ہم نئے ہتھیاروں کی تیاری اور انھیں نصب کرنے کا عمل دیکھیں گے۔‘

گذشتہ ماہ نیٹب کے سربراہ جینز سٹولٹنبرگ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ روسی میزائل جو کہ اس معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہیں، انتہائی چھوٹے سائز کے، جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل، موبائل اور انتہائی مشکل سے پکڑے جانے والے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میزائل منٹوں میں یورپی شہروں تک پہنچ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ آئی این ایف معاہدہ کئی دہائیوں سے ہتھیاروں کے کنٹرول کے سلسلے میں اہم ترین ستون تھا اور اب ہم اس معاہدے کا ختم ہونا دیکھا رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کے بالکل کوئی شواہد نہیں ہیں کہ روس اس معاہدے کی پاسداری کرے گا اور ہمیں اس معاہدے کے بغیر رہنے اور مزید روسی میزائلوں والی دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

نیٹو کے ردِعمل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ حتمی تاریخ کے بعد ہی کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ نیٹو کا اپنے زمینی جوہری میزائلوں کو یورپ میں نصب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم روایتی فضائی اور میزائلی دفاع کا نظام اور نئی مشقیں سب ردِعمل کا حصہ ہو سکتی ہیں۔

’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘ ہے کیا؟

Mikhail Gorbachev and Ronald Reagan signing the INF Treaty in 1987

  • یو ایس ایس آر اور امریکہ کے درمیان 1987 میں طے پایا۔ یہ آرمز کنٹرول کا وہ معاہدہ تھا جو کہ تمام کم اور درمیانے فاصلے تک مارک کرنے والے جوہری اور غیر جوہری میزائلوں کو ممنوع کرتا ہے۔ اس میں وہ میزائل شامل نہیں جو کہ پانی سے لانچ کیے جاتے ہیں۔
  • امریکہ کو 1979 میں سویت یونین کے ایس ایس 20 میزائل نظام کے نصب کرنے کے حوالے سے خدشات تھی اور انھوں نے جواب میں پرشنگ اور کروز میزائل یورپ میں نصب کر رہے جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے
  • 1991 تک 2700 میزائلوں کو ہذف کیا جا چکا تھا۔
  • دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی انسٹالیشنز کا جائزہ لینے کی اجازت تھی۔

تجزیہ: ایسے معاہدہوں کا کوئی فائدہ نہیںجانتھن مارکس، بی بی سی کے سیکیورٹی نامہ نگار

آئی این ایف معاہدے کا ترک کیا جانا ہتھیاروں کی روک تھام کے حامیوں کے لیے ایک بہت بڑا سیٹ بیک ہے۔ یہ واحد معاہدہ ہے جس نے جوہری ہتھیاروں کی ایک پوری کیٹیگری ممنوع کر دی تھی۔

یہ ایک ایسے وقت پر ترک کیا جا رہا ہے جب امریکہ کے خیال میں روس دوبارہ ابھر رہا ہے اور وہ اسے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔

نہ ماسکو اور نہ ہی واشنگٹن کے خیال میں ایسے معاہدہوں کا کوئی فائدہ ہے۔

سرد جنگ کے دور کا اہم ترین معاہدہ، نیو سٹارٹ ٹریٹی، جو کہ طویل رینج کے میزائلوں پر پابندی لگاتا ہے فروری 2021 میں ختم ہو رہا ہے۔ اس کی تجدید بھی اب یقینی نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ہتھیاروں کی روک تھام بظاہر اتنا اہم نہیں تھا۔

اب کیونکہ خطرہ بڑھ رہا ہے تو ہتھیاروں کے روک تھام کے معاہدے استحکام کے لیے اہم ثابت ہو سکتے تھے۔

اس کے بجائے ہتھیاروں کی روک تھام بالکل اسی وقت مشکلات کا شکار ہے جب مصنوعی ذہانت اور ہائیپر سونک میزائلوں جیسی ٹیکنالوجی تیار کی جا رہی ہے۔


یہ مسائل پیدا کیسے ہوئے؟

2007 میں روسی صدر پوتن نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ روسی مفاد میں نہیں رہی۔

انھوں نے ایسا ایک ایسے وقت پر کہا تھا کہ جب صدر بش 2002 میں امریکہ کو ہلسٹک میزائل شکن معاہدے سے علیحدہ کر دیا تھا۔

2014 میں صدر اوباما نے روس کے زمینی کروز میزائل ٹیسٹ کرنے پر آئی این ایف معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔

A Russian missile is fired during military exercises

اطلاعات کے مطابق انھوں نے اُس وقت اس معاہدے سے علیحدگی اس لیے نہیں اختیار کی کیونکہ ان پر یورپی رہنمائوں نے دباؤ ڈالا تھا۔

تاہم بعد میں نیٹو نے نے امریکی الزامات کی حمایت کر دی اور روس کو باضابطہ طور معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp