ایک موجد جو ’پالتو پتھر‘ فروخت کر کے کروڑ پتی بن گیا


گیرا ڈاہل

سنہ 1975 کی کرسمس تک ڈاہل ’پالتو پھتر‘ کے پچاس لاکھ پیکٹ فروخت کر چکے تھے

اس سے اچھی پالتو چیز کیا ہو سکتی ہے جسے آپ کو نہ کھانا کھلانا پڑے، نہ نہلانا دھلانا، نہ ہی باہر سیر کے لیے لے جانا پڑے اور جب آپ کو چھٹیوں پر جانا ہو تو یہ فکر بھی نہ ہو کہ آپ کی پالتو چیز کا خیال کون رکھے گا۔ ظاہر ہے ان سب خوبیوں سے مالامال یہ پالتو چیز کوئی جاندار نہیں ہو سکتی۔

لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ سنہ 1970 کے عشرے میں امریکہ میں جانوروں یا پرندوں کے بجائے پتھر پالنے کا رواج اس قدر بڑھ گیا تھا کہ چند ماہ کے لیے جسے دیکھو ’پالتو پتھر‘ خرید رہا تھا۔

ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ 70 کے عشرے میں دنیا بھر میں لوگ پرانے رسم و رواج کو توڑ رہے تھے۔ ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ یہ کیا بیوقوفانہ دور تھا۔

’پالتو پتھروں‘ کے خیال کے بانی گیری ڈال تھے، جو اس وقت مختلف اشتہاری کمپنیوں کے لیے کاپی رائٹر کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ وہ اصل میں بے بیروزگار اور بالکل کنگال ہو چکے تھے۔

گیری ڈال کو عام پتھروں کو بطور پالتو جانور فروخت کرنے کا خیال ایک دن اس وقت آیا جب وہ ریاست کیلیفوریا کے جنوب میں اپنے آبائی قصبے میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے بیئر پی رہے تھے۔

باتوں باتوں میں گفتگو پالتو جانوروں کی ہونے لگی اور ہر کوئی کہنے لگا کہ آج کل جانور پالنا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ ڈال نے کہا کہ ان کے پاس اس مسئلے کا حل موجود ہے اور وہ ہے ‘پالتو پتھر۔’

یہ بھی پڑھیے

نیوزی لینڈ کی ’بلیِ اوّل‘

نیویارک کی اشرافیہ کو لُوٹنے والی جعلی دولت مند

ڈال نے صرف بات نہیں کی بلکہ کچھ عام پتھر اکٹھے کر کے انھیں فروخت کی غرض سے ٹین کے چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں ڈالنا شروع کر دیا۔

انھوں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا کیونکہ ڈبے پر صاف لکھا ہوا تھا : ’پالتو پتھر‘۔

ڈبے پر مزید لکھا ہوا تھا کہ یہ عام پتھر ہیں جو ہم نے میکسیکو کے ساحل سمندر سے اکھٹے کیے ہیں اور انھیں پالتو پرندوں کی طرح گھاس پھونس کے گھونسلے میں احتیاط سے رکھا گیا ہے اور ڈبے میں سوراخ بھی کیے ہیں جیسے کسی جاندار چیز کے سانس لینے کے لیے سوراخ کیے جاتے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ ڈاہل نے ڈبے میں ایک کتابچہ بھی رکھا جس پر لکھا تھا کہ آپ اس پتھر کو کیسے کرتب سکھا سکتے ہیں اور اسے صحتمند رکھنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔

پالتو پتھروں کا ایک نمونہ

پالتو پتھروں کو آپ جہاں کہیں ’بیٹھ‘ جاتے ہیں اور جب کہیں ’رک‘ جاتے ہیں

مثلاً کتابچہ میں درج ہدایات میں لکھا تھا کہ ’پالتو پتھروں کو ٹریننگ دینا آسان ہے۔ آپ نہایت کم وقت میں ان پتھروں کو ’بیٹھنا، ایک جگہ رک جانا اور کسی مردہ چیز کی طرح ساکت ہو جانا سِکھا سکتے ہیں۔’

ہدایات میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’کبھی بھی اپنے پالتو پتھر کو تیراکی کے لیے نہ لیکر جائیں، کیونکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ تیرنے میں بہت کمزور ہیں اور جلد ہی ڈوب جانا پسند کرتے ہیں۔ آپ ان کو کبھی کبھار نہلا سکتے ہیں، لیکن زیادہ گہرے پانی میں نہلانے سے گریز کریں۔‘

ان پتھروں کو پالنے والوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ ’شاید یہ پتھر خوراک کے بغیر خوش رہتے ہیں‘ یہ لوگ ’خاصے سست‘ واقع ہوئے ہیں اور ’بہت ضدی ہیں کیونکہ یہ آپ کے بلانے پر چل کر آپ کے قریب نہیں آتے۔ اس کے علاوہ یہ ’سیر کے لیے جانا پسند کرتے ہیں‘ اور ’انھیں آپ کی جیب میں بیٹھ کر سفر کرنا زیادہ پسند ہے۔‘

سنہ 1975 میں جب ڈال کا کاروبار عروج پر تھا تو انھوں نے ایک رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’لوگ اپنے مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر بہت بیزار ہو چکے ہیں۔ ان پالتو پتھروں کے ساتھ لوگ ایک ایسے خیالی سفر پر نکل جاتے ہیں جس سے انھیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حسِ مزاح کو ایک ڈبے میں بند کر کے بیچنا شروع کر دیا ہے۔‘

لاکھوں ڈالر کمانے کا خیال

ستر کی دہائی میں امریکیوں نے واقعی پالتو پتھر خریدنا شروع کر دیے۔ ڈال نے ایک پتھر کی قیمت تین ڈالر 95 سینٹ ( آجکل کے 15 ڈالر) رکھی تھی اور سنہ 1975 میں وہ 50 لاکھ پتھر فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور جب کرسمس کے آتے آتے پالتو پتھر خریدنے کا رواج کم ہوگیا تو اس وقت تک وہ لاکھوں ڈالر کما چکے تھے۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق ان چند ماہ میں ڈال اتنے پیسے بنا چکے تھے کہ انھوں نے پرانی کار بیچ کر مرسیڈیز خرید لی تھی اور اپنا چھوٹا سا کمرہ چھوڑ کر ایک ایسا گھر بھی خرید لیا تھا جس میں سوِمنگ پول بھی تھا۔

سنہ 1982 میں بھی بچے پالتو پتھر خرید رہے تھے

اگرچہ پالتو پتھروں کے خیال کے جملہ محفوظ تھے لیکن باقی لوگوں نے بھی یہ کاروبار شروع کر دیا تھا

لیکن پھر پالتو پتھروں والے کاروبار کے برے دن آنا شروع ہو گئے۔

ابتدائی کامیاب کاروبار کے بعد ڈال نے اس قسم کے کئی اور کاروبار بھی کرنے کی کوشش کی جن میں انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان ناکام منصوبوں میں ایک وہ منصوبہ بھی شامل تھا جس میں ’ریت پیدا‘ کرنے کی ترکیب فروخت کرنا چاہ رہے تھے۔

’ریت کی افزائش نسل‘ کے اس کاروبارمیں لوگوں کو دو نلکیاں (ٹویب) فروخت کی جا رہی تھیں جن میں ایک ٹیوب ’نر‘ تھی اور دوسری ’مادہ‘۔ خریدار ان دو مختلف نلکیوں سے نکلنے والی نر اور مادہ ریت کو ملا کر اپنے گھر میں ’افزائشِ ریت‘ کر سکتے تھے۔

سنہ 1976 کے اس ناکام کاروبار کے بعد سنہ 1978 میں ڈال کو اس وقت کسی قدر کامیابی حاصل ہوئی جب انھوں نے ایکرولِک (پلاسٹک کی ایک قسم) کی چھوٹی چوٹھی ٹیوبوں میں مٹی فروخت کرنا شروع کر دی۔ پانچ ڈالر 95 سینٹ کی اس ٹیوب میں ڈاہل جو مٹی فروخت کر رہے تھے، اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ چین سے سمگل کی گئی تھی۔

ان دنوں مشہور امریکی رسالے ’ٹائم میگزین‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈال نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر بہت سے امریکی اس سرخ چینی مٹی کے ایک ایک مربع انچ کے ٹکڑے خرید لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہی دیکھتے پورے چین کے قدموں کے نیچے سے مٹی کھینچ لیں گے۔‘

اس کے علاوہ ڈال نے کچھ اور کاوباری منصوبوں میں قسمت آزمائی کی جن میں ایک بیوٹی سیلون کھولنا اور سیر کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کا کاروبار بھی شامل تھا۔

’خبطی لوگوں کا گروہ‘

لیکن ان میں سے کوئی کاوبار نہیں چلا اور ستّر کے عشرے کے آخری برسوں میں ڈال کے خلاف سرمایہ کاروں نے کئی مقدمے دائر کر دیے جن میں ان کا الزام تھا کہ ڈاہل نے اپنے منافع میں ان لوگوں کو بہت کم حصہ دیا ہے۔

اس دوران، اگرچہ ڈال نے پالتو پتھروں والے خیال کے جملہ حقوق محفوظ کر لیے تھے، لیکن اس کے باجود کچھ اور لوگوں نے بھی مختلف ناموں سے پالتو پتھر فروخت کرنا شروع کر دیے تھے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے ڈال اپنے اصل پیشے، یعنی اشتہار سازی کی طرف لوٹ آئے اور پھر 2001 میں انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان ‘ایڈورٹائزِنگ فار ڈمّیز’ یا کم عقلوں کے لیے اشتہار سازی رکھا۔

ریت کے ٹیلے

مالی حالات خراب ہوئے تو ڈاہل نے ’افزائشِ ریت‘ کا کاروبار کرنے کی کوشش بھی کی

ڈال سنہ 2015 میں 78 برس کی عمر میں انتقال کر گئے اور لوگ اسی سوچ بچار میں ہیں کہ آیا واقعی انھوں نے سنگ فروشی سے پیسہ بنایا تھا۔

کچھ بھی ہو انھوں نے سنہ 1998 میں ایک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کاروباری خیالات نے انھیں ایک مشہور آدمی ضرور بنا دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پالتو پتھروں کے بعد انھوں نے اچھا خاصا وقت نئی ایجادات کے ایسے دعویداروں کے ساتھ برباد کیا جو فضول قسم کے خیالات لیکر ان کے پاس آتے تھے۔ بقول ڈال کے یہ تمام لوگ ’بیوقوفوں کا ٹولہ‘ تھے۔

’یہاں کچھ ایسے پاگل بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ان کو کما کر کھلانا میری ذمہ داری ہے۔‘

’کبھی کبھی میں پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میں اگر یہ سب کچھ نہ کرتا تو میری زندگی خاصی سادہ ہو سکتی تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp