پاکستانی جمہوریت پر پہلا وار


تئیس اکتوبر سن انیس سو چون کا وہ پر آشوب دن مجھے ابھی تک یاد ہے جب اُس زمانہ کے نئے وزیر اعظم محمد علی بوگرا امریکا کا دورہ اچانک ادھورا چھوڑ کر لندن کے راستہ کراچی واپس آئے تو ہوائی اڈہ سے انہیں پولیس کے سخت پہرے میں عملی طور پر ایک قیدی کی طرح سیدھے گورنر جنرل ہاؤس لےجایا گیا، جہاں گورنر جنرل ملک غلام محمد، فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور اُس زمانہ کے مشرقی پاکستان کے گورنر، جنرل سکندر مرزا صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ ہوائی اڈہ پر موجود ہم چند صحافیوں نے وزیر اعظم بوگرا سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن صاف منع کردیا گیا۔ حتیٰ کہ پرنسپل انفارمیشن افسر کرنل مجید ملک بھی بے بس تھے اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

ہوائی اڈہ سے واپسی پرجب کراچی میں بھاری تعداد میں فوج کے دستوں کو نقل و حرکت کرتے دیکھا تو ماتھا ٹھنکا۔ طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا اور قیاس آرائیوں کا زور تھا۔ وہ آشوب انگیز رات تھی۔ پوری رات صحافی ان جانے اہم اعلان کا انتظار کرتے رہے۔ گورنر جنرل ہاؤس میں، تین کے ٹولہ کے طویل صلاح مشورہ اور منصوبہ بندی کے بعد وزیر اعظم بوگرا کو فوجی افسروں اور پولس کی معیت میں بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے اسٹڈیو لے جایا گیا جہاں سے انہوں نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب دستور ساز اسمبلی نے آئین کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ منظور کر لی تھی اور ملک کے پہلے آئین کا مسودہ چھ روز بعد ایوان میں پیش کیا جانے والا تھا۔ یہ اکتوبر کی چوبیس تاریخ تھی جسے اب پینسٹھ سال پورے ہونے کو آ رہے ہیں۔

پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت پر یہ پہلا اور ایک بھر پور کاری وار تھا جو اُس زمانہ میں سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعہ بننے والے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر ملک کو ان بھول بھلیوں میں دھکیل دیا جن سے وہ اب تک نہیں نکل سکا ہے۔

ملک غلام محمد انگریزی دور کی بیوروکریسی کے نیابت دار تھے اور مالی معاملات میں مہارت کی بنیاد پر پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے شامل کیے گئے تھے۔ وہ نہ مسلم لیگ کے رہنما تھے اور نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر اور دائرۂ اثر تھا ۔ ملک کےپہلے وزیر اعظم لیا قت علی خان کے قتل کے بعد ملک کی بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ بنایا تھا۔ جس کے تحت اُس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو اس عہدہ سے ہٹا کر انہیں وزیر اعظم کے عہدہ پر مقرر کردیا گیا اور ان کی جگہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدہ پر فائز کردیا گیا۔

ملک غلام محمد اور ایوب خان

اس کا کہیں ثبوت نہیں کہ یہ عمل جمہوری طریقہ سے ہوا تھا۔ نہ تو اس زمانہ میں حکمران مسلم لیگ کی کسی سطح پر ان تبدیلیوں پر غور کیا گیا اور نہ کابینہ میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی۔ یہ فیصلہ اس زمانہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی اور ان کے قریبی ساتھیوں اور مشیروں نے کیا تھا۔

بظاہر یہ فیصلہ ملک کے مشرقی حصہ کو وزارت عظمٰی تفویض کرنے کا فراخدلانہ فیصلہ تھا لیکن بیورو کریسی کوبخوبی علم تھا کہ چونکہ پاکستان کی حیثیت اس وقت برطانیہ کی ڈومینین کی ہے اور سن انیس سو پینتیس کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پاکستان میں آئین کے طور پر نافذ تھا۔ اس کے تحت گورنر جنرل کو وزیر اعظم سے زیادہ اختیارات حاصل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں جمہوریت پر کاری وار کی راہ ہموار کرنے کے لیے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے مارچ سن تریپن میں بجٹ کی منظوری کے فورا بعد وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اچانک برطرف کیا تو اس فیصلہ کے خلاف ملکۂ برطانیہ سے اپیل کے جواب میں معزول وزیر اعظم کو یہی جواب ملا تھا کہ انیس سو پینتیس کے ایکٹ کے تحت گورنر جنرل کو وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا اختیار ہے اور وہ اس فیصلہ کے سلسلہ میں کچھ نہیں کر سکتیں۔

باوردی وزیردفاع

گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کی اکثریت کے اعتماد کے باوجود ان پر کوئی الزام عاید کیے یا کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر کے امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کرنے کا اقدام در اصل فوج کی مدد اور اعانت سے کیا تھا جس کے عوض فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا تھا۔

پاکستان میں یہ پہلا موقع تھا جب وزیر دفاع فوجی وردی میں ملبوس کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوا۔ یہ دراصل ملک کے اقتدار میں فوج کی شراکت اور آخر کار ملک کے اقتدار پر براہ راست فوج کے تسلط کی ابتدا تھی۔

ایوب خان اور بیگم ناہید مرزا

چوبیس اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل ملک غلام محمد کی طرف سے دستور ساز اسمبلی توڑنے کے اقدام کےپس پشت سب سے بڑی وجہ ملک میں آبادی اور طاقت کے لحاظ سے صوبوں کے درمیان عدم توازن تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے سات سال کے طویل عرصہ کے بعد ملک کے پہلے آئین کے خاکہ کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی جو رپورٹ منظور کی تھی دستور ساز اسمبلی میں پنجاب سے مسلم لیگ کے اراکین جن کی قیادت ملک فیروز خان نون کر رہے تھے اس کے سخت خلاف تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ اس رپورٹ پر مبنی نئے آئین کا بڑی حد تک جھکاؤ مشرقی پاکستان کے حق میں رہے گا اور نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ بیوروکریسی اور فوج میں پنجاب کے مفادات کو سخت زک پہنچے گی۔ پنجاب کا یہ خدشہ اس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب مشرقی پاکستان کے وزیر اعلی نورالامین کی شہ پر سندھ کے وزیر اعلی عبدالستار پیر زادہ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور ان کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے ایک آئینی ترمیم پیش کی تھی۔

پنجاب کے خدشات

گورنر جنرل ملک غلام محمد اس پر سخت طیش میں آگئے تھے۔ اسی کے ساتھ بیورکریسی ، فوج اور پنجاب کا مفاد پرست طبقہ اس اقدام پر لرز اٹھا۔ انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر ملک میں جمہوری ڈھانچہ کے تحت مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر بالا دستی حاصل ہوگئی اور وہ ملک کے دوسرے تین چھوٹے صوبوں کے ساتھ کسی معاملہ پر یک رائے اور متحد ہو جائے تو پنجاب سیاسی طور پر بے بس ہو کر رہ جائے گا۔

چنانچہ گورنر جنرل ملک غلام محمد کی شہ پر پانچ اکتوبر کو ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ پارٹی نے تین مطالبات پر مشتمل ایک الٹی میٹم پیش کیا اور کہا کہ اگر اس کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو اٹھائیس اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہو جائیں گے۔

اسکندر مرزا (بائیں) بھی سازش کا حصہ تھے

پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے جو تین مطالبات پیش کیے تھے ان میں پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف چار سبجیکٹس ہونے چاہیئں ۔ اول دفاع ، دوم امور خارجہ سوم کرنسی اور بیرونی تجارت چہارم بین صوبائی مواصلات۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے علاوہ تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیے تمام صوبوں کے نمائندوں کی کمیٹی فیصلہ کرے۔ تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے لیے تمام صوبوں میں تیس فی صد اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو۔

سہروردی نون سودا

اس دوران گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ملک فیروز خان نون کو بڑی عجلت میں زیورخ بھیجا جہاں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی زیر علاج تھے۔ اس پورے کھیل میں سہروردی کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ گئی تھی کہ سن چون کے اوائل میں مشرقی پاکستان کے انتخابات میں عوامی لیگ کی قیادت میں جگتو فرنٹ فاتح رہی تھی اور سہروردی کو یہ احساس تھا کہ پنجاب سے ہاتھ ملائے بغیر انہیں قیادت میں شراکت حاصل نہیں ہو سکتی۔

اس زمانہ میں یہ کھلا راز تھا کہ زیورخ میں سہروردی اور نون کے درمیان ایک سودا طے پا گیا ہے جس کے تحت سہروردی نے مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھ ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرنے کے بارے میں تین کے ٹولہ کی تجویز کی اس شرط پر حمایت کرنے پر اتفاق کیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی حکومت جسے جنرل سکندر مرزا نے برطرف کر دی تھی بحال کر دی جائے گی۔

سہروردی نون ملاقات کے بعد زیڈ اے سلہری نے جو اس زمانہ میں ٹائمز آف کراچی نکالتے تھے نہ جانے کس کی ایما پر زیورخ گئے اور سہروردی کا ایک انٹرویو لے کر آئے جو انہوں نے اپنے اخبار میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ اس انٹر ویو میں سہروردی نے دستور ساز اسمبلی کو غیر نمائندہ قرار دیا تھا اور اسے توڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس انٹرویو سے بلا شبہ گورنر جنرل کے منصوبے کو تقویت پہنچی۔

ناظم الدین اور سہروردی: ناظم الدین کو وزیراعظم بنانا ایک سازش تھی

عدلیہ کا رول

چوبیس اکتوبر سن چون کو جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو اس اقدام پر پورا ملک دم بخود رہ گیا اور سیاست دانوں پر ایسی دہشت طاری ہوگئی کہ سب مفلوج ہو کر رہ گئے۔ یہ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان تھے جنہوں نے جی داری دکھائی اور ملک غلام محمد کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ چیف کورٹ نے جب مولوی تمیز الدین خان کے حق میں فیصلہ دیا اور دستور ساز اسمبلی کی بحالی اور نئی کابینہ کی منسوخی کا حکم جاری کیا تو ملک بھر میں خوشیا ں منائی گئیں اور لوگوں کو جمہوریت کی بقا کے امکانات روشن دکھائی دینے لگے۔

لیکن ان امکانات کو اس وقت زبردست زک پہنچی جب حکومت کی اپیل پر فیڈرل کورٹ نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ رد کر دیا۔ اس معاملہ میں چیف جسٹس محمد منیر کا جو رول رہا اور انہوں نے جس مصلحت کوشی سے کام لیا اس کو اب بھی ہدف ملامت بنایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدہ سے سبک دوش ہوتے وقت جسٹس منیر نے اپنے فیصلہ کا یہ کہہ کر دفاع کیا تھا کہ اگر وہ حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے تو ملک میں افراتفری اور نراجیت پھیلنے کا خطرہ تھا۔ لیکن غالبا انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے اس فیصلہ کے جمہوریت کے مستقبل پر کس قدر مہلک اثرات مرتب ہوں گے اور ملک فوجی آمریت کے ایک ایسے چنگل میں پھنسے گا کہ نکلنا محال ہو جائےگا۔

بہرحال یہ شروعات تھی پاکستان کی عدلیہ کی مصلحت اندیش روایات کی جس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد اور اعتبار متزلزل ہو کر رہ گیا۔

65 سال قبل گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑنے کے لیے جس طرح فوج کا سہارا لیا اس کے نتیجہ میں ملک کی سیاست میں فوج کی دخل اندازی کے دروازے کھل گئے اور براہ راست ملک کے اقتدار پر فوج کے تسلط جمانے کی راہ ہموار ہوگئی۔

پاکستان میں جمہوریت پر یہی پہلا کاری وار تھا جس نے پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھ دی اور شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان میں آج تک سول قیادت اور فوج میں بالادستی کا سوال طے نہیں ہو سکا۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani