خبردار! ضمیر کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے


لکھنے والوں میں ایک دوسرے سے ان کہا تعلق ہوتا ہے۔ کوئی بھلے اپنے پندار میں تسلیم نہیں کرے لیکن لکھنے والوں کو ایک دوسرے کی تحریر سے رہنمائی ملتی ہے۔ کہیں اپنی کسی رائے کی تصدیق ہونے سے حوصلہ بڑھتا ہے تو کہیں کسی اختلافی رائے سے نئے زاویے روشن ہوتے ہیں۔ کسی تحریر سے بات کہنے کا کوئی ڈھب سجھائی دیتا ہے تو کسی کمزور تحریر سے انتباہی نکات معلوم ہوتے ہیں۔ ذاتی زاویے سے لکھی صحافتی تحریروں کی روایت ہمارے ہاں ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے اور اس میں بڑے جید اہل علم و خبر نے اپنا کمال دکھا رکھا ہے۔ چراغ حسن حسرت کے ’حرف و حکایت‘ سے بہتر اردو کالم کوئی کیا لکھے گا۔ درویش کا اخبار بینی سے تعارف ہوا تو انتظار حسین اور منو بھائی کا ڈنکہ بج رہا تھا۔ انتظار صاحب تہذیبی، ادبی اور تمدنی حوالوں سے ایک عہد کو دستاویز کر رہے تھے۔ منو بھائی کو سیاست سے گریز نہیں تھا لیکن ان کا اصل کمال سماجی تبصرے کی تہ در تہ جراحی میں سامنے آتا تھا، لہجہ بے تکلف لیکن انسانی محرومیوں کے گہرے احساس میں گندھا ہوا۔ منو بھائی وقت کے قافلے میں دکھوں کی پوٹلی اٹھائے چلنے والی بے چہرہ ماؤں سے لے کر ویت نام، بیروت، کشمیر اور فلسطین میں معصوم بچوں کے بہتے لہو کی ایسی تصویر کھینچتے تھے کہ پڑھنے والی آنکھ میں انصاف کے لئے اضطراب کی لہریں مچلنے لگتی تھیں۔ ضیاالحق کے نازل ہونے پر اس ملک میں جمہوریت کے ساتھ صحافت میں بھی بجوگ پڑا۔ خبر کا صفحہ اجڑ گیا تو اہل صحافت نے جوق در جوق ادارتی صفحے کی راہ لی۔ منزل نہ ملی تو قافلوں نے / رستے میں جما لئے ہیں ڈیرے۔ یہ ایک قرینہ تھا فسانہ ہجراں کہتے رہنے کا۔ یہ اور بات کہ پھر یہ گلی بھی بازار ہو گئی۔ کالم اپنی ذات کی تشہیر، ممدوح کے قصیدے اور سازش کے منصوبے سے مملو ہو گیا۔ ہماری تاریخ ندامت کا حالیہ مرحلہ شروع ہوا تو ایک ایک کر کے زندہ لفظ پردہ کر گئے۔ بہت سے لکھنے والے خود سے خاموش ہو رہے۔ لفظ مردار کا بھاؤ البتہ قائم رہا۔ اس پر تشویش ہوئی۔ سراج الدین بہادر شاہ ظفر پر بھی یہ مرحلہ گزرا تھا
جن گلین میں پہلے دیکھیں لوگن کی رنگ رلیاں تھیں
پھر دیکھا تو ان لوگاں بن سونی پڑی وہ گلیاں تھیں
کچھ ارباب قلم سے رابطہ کر کے عزلت نشینی کی وجہ جاننا چاہی تو انکشاف ہوا کہ ہمارے بہت سے سوجھوان حوصلہ چھوڑ گئے ہیں۔ ایک نہایت قابل احترام اہل قلم نے جب یہ کہا کہ ’ایسا لگتا ہے تمام موضوعات اور خیالات کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے. ایک مایوسی سی محسوس ہوتی ہے کچھ بھی لکھتے ہوئے….‘ تو عالمتاب تشنہ یاد آ گئے۔ یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا / کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا۔ یکم اگست کو ایوان بالا میں جو کارروائی ہوئی، اس سے دلوں کی ویرانی مزید بڑھ جائے گی۔ اس کا الزام حکومت پر رکھنا بے معنی ہے، حکومت کو یہی کرنا تھا۔ آپ نے عدم اعتماد کیا، حکومت نے آپ کے اعتماد کا لبادہ نوچ لیا۔ اس عمل میں ہماری سیاست کا نہفتہ ننگ سامنے آیا ہے۔ ہمارے جمہوری مکالمے کا نہانی دیوالیہ پن آشکار ہوا ہے۔ محترم حاصل بزنجو کا ردعمل ایک طرف، جاننا چاہیے کہ ووٹ لے کر ایوان بالا میں فروکش ہونے والے کم از کم درجن بھر نمائندوں نے اپنی علانیہ وابستگی سے درپردہ انحراف کیا ہے۔ اگر یہ ضمیر کی آواز تھی تو یہ ضمیر دن کی روشنی میں کھڑے ہو کر اپنا اعلان کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ پردے کی اوٹ میں جاگتا ہے۔ مبینہ ضمیر کی یہ حجابی خیزش تاریخ پر اپنا دھبہ چھوڑ جائے گی۔ سب دھبے اچھے نہیں ہوتے۔
ہماری تاریخ امید کی شکست سے عبارت ہے۔ شارع عام پر لٹنے کی حکایت ہے۔ جمہوری جدوجہد کی کیاری پر ٹڈی دل کی پے در پے یلغار کی کہانی ہے۔ یہ سب تسلیم لیکن جاننا چاہیے کہ ہماری تاریخ کا روشن ترین زاویہ بھی اسی روایت میں پیوست ہے۔ ہمارے بہادر لوگ لڑائی ہارتے آئے ہیں لیکن ہتھیار نہیں ڈالے۔ یاد کیجئے، مارچ 1951 میں پنجاب کے صوبائی انتخاب پر راولپنڈی سازش کیس کی چادر ڈال دی گئی تھی اس کے باوجود لاہور کے ڈپٹی کمشنر ایس ایس جعفری کو جھرلو کی مدد سے مرزا ابراہیم کے ووٹ مسترد کرنا پڑے۔ مارچ 1954 میں مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخاب میں جگتو فرنٹ نے 310 کے ایوان میں 301 نشستیں جیتی لیکن فضل الحق کی حکومت دو مہینے نہیں نکال سکی۔ مئی 1956 میں مغربی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر کے لئے مسلم لیگ اور اسکندر مرزا کی دست کاری کے نمونے ریپبلکن پارٹی میں مقابلہ تھا۔ سردار عبدالرب نشتر کے امیدوار نے سرکاری امیدوار کے برابر ووٹ لئے لیکن پریزائڈنگ افسر کے کاسٹنگ ووٹ سے فضل الہیٰ چوہدری اسپیکر بن گئے۔ معلوم کیجئے کہ جنوری 1965 میں فاطمہ جناح صدارتی انتخاب ہاری تھیں یا قوم ناکام ہوئی تھی۔ 1970 کے عام انتخابات میں کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ تو ان کے ہاتھ میں تھا جنہوں نے انتخاب کا نتیجہ نہیں مانا اور قائد اعظم کا پاکستان توڑ دیا۔ مئی 1986 میں فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وزیر اعظم جونیجو اسی انبساط سے مبارک باد وصول کر رہے تھے جیسے کل سہ پہر شبلی فراز کے چہرے پر گلاب کھل رہے تھے۔ دیکھنے والی آنکھ نے نظر بھر کے محمد خان جونیجو کو دیکھا اور زیر لب کہا تھا، For whom the bell tolls۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف نومبر 1989 کی تحریک عدم اعتماد چھانگا مانگا اور سوات کی تفریح گاہوں میں دفن ہو گئی۔
ہمارا تانگہ کچہری سے بار بار خالی آیا ہے۔ ہمارے ووٹ کی گنتی علم حساب کے کلیے جھٹلاتی رہی ہے۔ ہمارے ایوانوں کی تقدیس طاقت کے جوتوں تلے روندی گئی ہے۔ حکومت کا چہرہ کوئی بھی ہو، اس ملک کے عوام کا مقسوم حزب اختلاف ٹھہرا ہے۔ پاکستان کے باشندوں کے خواب بار بار ٹوٹے ہیں لیکن وہ خواب بدستور زندہ ہے جو بابائے قوم نے ہمارے لئے دیکھا تھا۔ اس خواب کی توانائی اس کے مسلسل سانس لیتے رہنے میں پوشیدہ ہے۔ جیتنے اور ہارنے والوں کی دم بدم بدلتی فہرست سے قطع نظر، اس ملک کا سرکاری اور حتمی نتیجہ ابھی فیصل نہیں ہوا۔ یہ دبیز دیواروں میں پوشیدہ کیمرے کی آنکھ اور تاریخ کے ضمیر میں مقابلہ ہے۔ تاریخ کے ضمیر کو پردے کی حاجت نہیں۔ کیمرے کی آنکھ سے خائف ہونے والوں کو خبردار رہنا چاہیے کہ تاریخ کی آنکھ انہیں دیکھ رہی ہے اور پہچان رہی ہے۔ تاریخ کے ضمیر کو اونگھ نہیں آتی اور تاریخ کا فیصلہ سنسر نہیں ہوتا۔ درویش اس ملک کے لکھنے والوں سے ملتمس ہے کہ لکھتے رہو۔ یہ چوتھی نسل کی مقاومت کا رجز ہے۔ یہ گھوڑوں کے سموں تلے پامال میدانوں سے اپنے خواب کا شہید لاشہ سلامت اٹھانے کی گھڑی ہے، دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).