ناران کی بری حالت


بیس پچیس سال پہلے تک وادی کاغان میں سیاحوں کا آخری پڑاؤ کاغان کا شہر ہوا کرتا تھا۔ تاہم سڑک کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے بہت ہی کم سیاح اس علاقے تک پہنچ پاتے تھے، ورنہ تو صرف مری تک آ کر مال روڈ کے چکر لگا کر واپس چلے جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سڑکوں کی صورتحال بھی بہتر ہوتی گئی، اور قدرے خوشحالی بھی آتی گئی، کاغان جیسی تنگ جگہہ سیاحوں کی روز افزوں بڑھتی ہوئی تعداد کو سمیٹنے کے لئے ناکافی ثابت ہونے لگی۔

اس زمانے میں کاغان سے آگے لوگ مقامی جیپوں پر سوار ہو کر اس علاقے کی سب سے خوبصورت، لیکن قدرے دشوار اور بلند جگہہ جھیل سیف الملوک تک جاتے تھے۔ قریباً 30 کلو میٹر آگے جا کر ناران کے نام سے قدرے چوڑی وادی آتی تھی جہاں تک تنگ اور ٹوٹی پھوٹی سڑک کی سہولت بھی جھیل پر جانے والوں کے لئے ختم ہو جاتی تھی اور باقی دس کلومیٹر کا فاصلہ انتہائی خطرناک کچے راستے پر طے ہوتا تھا۔ ناران میں کچھ سرکاری ریسٹ ہاؤسز اور دفاتر تھے۔

آہستہ آہستہ دوچار کھوکھے اور کچے پکے ہوٹل بن گئے۔ اس جگہ کی کشادگی اور خوبصورتی لوگوں کو یہاں کھینچ کر لانے لگی، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کاغان سے بھی بڑا شہر وجود میں آ گیا۔ پہلی بار کوئی دس سال پہلے یہاں پہلی بار آنا ہوا، یہاں کا موسم، ہریالی، دریائے کنہار کا شور اور خوبصورتی سب کچھ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ مری جیسی پر ہجوم اورتنگ جگہ کی نسبت یہاں آ کر انسان اپنے آپ کو فطرت کے زیادہ قریب محسوس کرتا۔

ایک دن جھیل سیف الملوک پر چلے گئے۔ اگلے دن بٹہ کنڈی والی سائیڈ پر نکل کر لالہ زار چلے گئے، اس سے آگے جلکھڈ، لولو سر جھیل اور آخر پہ بابو سر ٹاپ، رات کو گھوم پھر کر واپس آ جاتے۔ کبھی خود کھانا بناتے تو کبھی مرکزی بازار کے کسی بھی ریستوران میں جا بیٹھتے۔ کھانا کھا کر مرکزی بازار کی خوبصورت صاف ستھری سڑک پر چہل قدمی کرتے۔ دکانوں میں جا کر ہلکی پھلکی شاپنگ اور آخر پر کسی بھی ڈرائی فروٹ شاپ سے اخروٹ، بادام، خشک خوبانیاں اور خشک شہتوت لے کر واپس ہوٹل آ جاتے۔

رات کو اس صاف ستھرے بازار کی روشنیاں اور ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے مردوزن کی چہل پہل مزہ دوبالا کر دیتی۔ سڑک کے کنارے پر صاف ستھرے کافی بنانے کے سٹال ایک بار ضرور آپ کو رکنے پر مجبور کردیتے تھے۔ ایک عدد پولیس اسٹیشن بھی تھا، جس کا مستعد عملہ سیاحوں کی رہنمائی اور شکایات کے ازالے کے لئے موجود رہتا، ویسے یہاں کسی کو لڑتے جھگڑتے کم ہی دیکھا۔ ہر کوئی اپنی دھن میں رہنا پسند کرتا تھا۔ خیر چار پانچ دن بعد خوشگوار یادوں کے ساتھ واپسی ہوئی۔

اس سال جون میں دوبارہ ناران پہنچے، تو شہر کی حالت بالکل بدل چکی تھی۔ بلندو بالا ہوٹلوں کی بھر مار ہو چکی تھی۔ شہر میں داخل ہونے سے کئی کلو میٹر پہلے ہی سے گاڑیوں کی قطاریں اور ہارن بجنے کا شور، لگتا تھا ہر ایک اسی شہر کی طرف رواں دواں ہے۔ شہر سے باہر میلے کچیلے خیمے، ٹین کی چھوٹی چھوٹی بے ترتیب جھونپڑیاں سڑک پر اور سڑک کنارے کچرے کے ڈھیر، مرکزی سڑک کے کنارے بدبو دار نالہ، جس میں فضلہ بہتا صاف دیکھا جا سکتا تھا، شہر میں داخل ہوتے ہی طبیعت مکدر ہو گئی۔

ہوٹلوں کے کمروں کے کرائے آسمان کو چھو رہے تھے، اور کمروں میں بوسیدہ فرنیچر، اور ملگجی چادریں اور کمبل ہی دستیاب تھے۔ ریستورانوں پر کھانوں اور صفائی کا معیار چیک کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ صرف ایک ہی مرکزی بازار ہے، اس کی خستہ حال سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ اس سڑک پر اب پیدل چلنا محال ہے۔ آپ شلوار یا پتلون کے پائینچے ہاتھوں میں پکڑے بغیر اس پر سے نہیں گزر سکتے۔ چلتے ہوئے اگر پاس سے کوئی کار یا جیپ گزر گئی تو گندہ کالا پانی پھوار کی صورت آپ کے کپڑوں پر ضرور گرے گا۔

فٹ پاتھ پر اب عینکیں بیچنے والے، سلاجیت بیچنے والے، گرم انڈے بیچنے والے اور نگینے بیچنے والے براجمان ہیں۔ پورے شہر میں ایک بھی کوڑے دان نظر نہیں آیا، نہ ہی سرکار کی طرف سے متعین کردہ صفائی کے عملے کا کوئی کارکن نظر آیا۔ اتنے بڑے شہر میں کوئی غیر ملکی سیاح نظر نہیں آیا۔ بس لونڈوں لپاڑوں کی آوارہ ٹولیاں اونچی آواز میں ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کرتی اور آوازے کستے گزر جاتیں۔ دوسرے دن بٹہ کنڈی اور جل کھڈ والی سائیڈ پر نکلے، تو جہاں بھی کوئی ٹھہرنے کی جگہ ملتی، وہیں پر ادھ کھائی ہڈیاں، آم کی گھٹلیاں، جوس کے خالی ڈبے اور پانی کی خالی بوتلیں استقبال کرتیں۔

ایک تو ہم سب فطرتاً گندگی پسند ہیں، دوسرا حکومت کی غفلت کی وجہ سے ایسے جنت نظیر علاقے بھی اب کچرا کنڈی کا روپ دھارنے لگے ہیں۔ پورے علاقے میں پبلک ٹوائلٹ، پارکنگ اور ریسٹ ایریاز کا فقدان ہے۔ جہاں کچھ دیر بیٹھ کر چائے یا کافی سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ ناران سے آگے اگر کہیں ایک آدھ ہوٹل یا ریستوران ہے بھی، تو انہوں نے لوٹ مار کی انتہا کی ہوئی ہے۔ ایک جگہ سے تو صرف دال روٹی کے ہی چار دوستوں نے 17 سو روپے ادا کیے، اور اس کے بعد ان علاقے کے ہوٹلوں سے کوئی بھی چیز لے کر کھانے سے توبہ تائب ہو گئے۔

اس پورے علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ والے کئی مقامات ہیں، گہری کھائیاں، نیز تیز روانی والے دریا اور نالے ہیں، جہاں حادثات ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، ناران شہر میں ایک پورا ریسکیو سینٹر ہونا چاہیے، اور دریا اور جھیلوں کے کناروں پر لائف بوٹس اور لائف گارڈز ہونے چاہییں۔ ایک اچھا ہسپتال ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی وہاں پر دستیاب نہیں، جبکہ اس علاقے میں آنے والے سیاحوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔

خیبر پختونخواہ حکومت کے سیاحت کے فروغ کے زبانی دعوے تو بہت سنے لیکن عملی طور پر یہاں کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ جو حکومت لاکھوں سیاحوں کی میزبانی کرنے والے شہر کی صرف چند کلو میٹر سڑک کی حالت درست نہیں کروا سکتی، وہاں صفائی کے لئے بیس تیس لوگ نہیں رکھ سکتی، صفائی کا عملہ تو کجا جو شہر کے واحد بازار میں کوڑے دان بھی نہیں رکھوا سکتی، اس سے باقی کاموں کی توقع رکھنا قطعی فضول ہے۔ اتنے خوبصورت مقامات کا ایسا برا حشر دیکھ کر دل دکھی ہوا۔ پتا نہیں ہم باتوں سے نکل کر عملی زندگی میں کب داخل ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).