سینیٹ الیکشن میں جادوئی اثرات


زمانہ تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ آج کل یہ شعبہ ایسے کام سر انجام دے رہا ہے کہ پرانی زبان میں اسے جادوئی اثرات سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پرانے زمانے کی کتابوں ہم ایسے قصے کہانیاں اب بھی دیکھتے رہتے ہیں۔ چند ہی سیکنڈز میں ایسی تبدیلی آتی تھی جیسے عقل پر پردہ پڑ گیا ہو۔ ایسے کاموں کو محیر ا لعقول کارنامے کہا جا تا تھا۔ ایسا ہی ایک کارنامہ یکم اگست کو ہمارے با وقار ادارے سینیٹ آف پاکستان میں ہوا۔ 64 با وقار اور پڑھے حضرات بقائمی ہوش و حواس ایک قراداد کو سپورٹ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ سینٹ کے سرکاری عملے نے ان کی گنتی کرکے اعلان کیا۔ ان کے اور دوسری پارٹیوں کے مطا بق تعداد واقعی 64 تھی۔

گنتی کے لمحوں میں ہر ممبر سینٹ کو اپنے کھڑے ہونے پر یقین تھا۔ صرف خیالوں میں نہیں بلکہ معروضی طور پر کھڑا تھا۔ سینیٹ میں نصب کیمرے بھی گواہی دے رہے تھے۔ حا ضری رجسٹر کے مطا بق ممبران کی تعداد 100 تھی۔ اس کا واضح مطلب تھا جنہوں نے قرارداد کی مخالفت کی وہ 36 تھے۔ نتیجہ واضح تھا بلوچستان کے بزرگ سیاستدان حاصل بزنجو کام یاب ہوگئے تھے۔ پھر خفیہ ووٹنگ شروع ہوئی۔

ووٹنگ کے بعد گنتی ہونا تھی، گنتی کے بعد پتا چلا کہ جادوئی اثرات سے 64 ووٹ کم ہو کر 50 رہ گئے ہیں یہ 14 جیتے جاگتے پڑھے لکھے ووٹرز کدھر گئے؟ یہی وہ لمحات تھے قدیم قصے کہانیوں کی طرح جادوئی اثرا ت ہوئے۔ جو ووٹ بکس سے بر آمد ہوئے وہ 50، 45 اور 5 تھے۔ اس نتیجہ کے مطابق صادق سنجرانی اپنی خوبصورت اور آرام دہ سیٹ بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

اور شفافیت پر سوال تو اٹھنے ہی تھے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں اب بھی جادوئی اثرات ہو تے ہیں۔ مخالف پارٹیاں مرضی کے نتائج کا شور ڈالتی رہتی ہیں۔ رات گئے لندن کے ایک یو ٹیوب چینل نے کسی ادارے کانام لیا لیکن ہم قومی ادارے کے بارے غلط بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن لوگوں کے منہ بند بھی نہیں کیے جا سکتے۔ جادو ٹونے کے اثرات کو ماننے والے پاکستا ن میں کروڑوں میں ہیں۔ یہ کام صدیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ اور آئندہ بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کام ہی کیا جو عقل کے ذریعے واضح ہو جائے۔ پاکستانی کارنامہ ہی اسے سمجھتے ہیں جو عقل سے ماوراء ہو۔ محیر العقو ل جیسی اصطلاحات آخر کس لئے بنی ہیں۔ یہ اصطلاح بار بار استعمال ہوگی تبھی لوگوں کو اس کا صحیح استعمال اور مفہوم یاد ہوگا۔

اگر دور جدید میں پرانے قصے کہانیوں کے اثرات نظر نہ آئیں تو ہمارا تمام کلاسیکل لٹریچر غیر متعلق ہو جائے گا۔ یہ بہت بڑا علمی نقصان ہوگا۔ لوگ طلسم ہوشرباء اور داستان امیر حمزہ کو بالکل ہی بھول جائیں گے۔ ہم یہ نقصان کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کبھی کبھی ان داستانوں جیسے حالات پیش آتے رہیں تو کلاسیکل لٹریچر کی یاد تازہ ہوتی رہتی ہے۔

جس گروپ کو 64 ووٹ نہیں ملے وہ فور ا سینیٹ سے چلے گئے اور عقل کے گھوڑے دوڑانے لگے لیکن ایسی باتوں کا عقل سے کیا تعلق؟ عقل سلیم کے ذریعے گہرا غور و خوض کرنے کے بعد جو پریس کانفرنس کی گئی اس سے بھی در پیش عقدہ حل نہی ہؤا۔ جادوئی واقعات کو تو کوئی جادو ٹو نے کا ماہر ہی سمجھ سکتا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کسی ایسے ہی تگڑے ماہر سے رجوع کریں۔ اور کسی ایسے ماہر سے بھی رابطہ کرنا ضروری ہے۔ جو ضمیر کے جاگنے اور سونے کے عمل سمجھتا ہو۔ یہ حالات ایسے ہیں کہ غور کے لئے شعبہ جاتی ماہرین کی اشد ضرورت ہے۔ میرا قلم بھی یہاں آکر رک گیا ہے لگتا ہے کہ اس پر بھی اثر ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).