کیا ’نئی قومی تعلیمی پالیسی‘ بھارت میں تبدیلی لا سکے گی؟


آزاد ہند میں یہ تیسری تعلیمی پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے، اس سے قبل یہاں دو قومی تعلیمی پالیسیاں بالترتیب 1968 ء اور 1986 ء میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے عہد میں بنائی گئی تھیں، تاہم 1986 ء کی پالیسی پر نظرثانی 1992 ء میں کی گئی۔ جب پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم تھے۔ قومی تعلیمی پالیسی اور بی جے پی کے بارے میں اگر دیکھا جائے تو 1977۔ 79 ء میں جب وہ جنتا حکومت کے حلیف کی حیثیت سے حکمران تھی اُس وقت بھی اس نے کوشش کی تھی کہ نئی تعلیمی پالیسی پیش کی جائے، لیکن ان کا دیا ہواکا خاکہ سنٹرل ایڈوائزری ایجوکیشن بورڈ نے نا منظور کر دیا تھا، یوں وہ سرد بستے میں چلا گیا مگرایک مرتبہ پھر بی جے پی نے قومی تعلیمی پالیسی کا مسودہ پیش کر دیا ہے جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اس کا آغاز 2016 ء ہی میں ہو گیا تھا۔

2019 ء میں جو مجوزہ تعلیمی پالیسی کا مسودہ پیش کیا گیا ہے اور جس پر عوام سے ان کی رائے طلب کی گئی ہے کہ اس پر بحث و مباحثہ کے بعد اسے حتمی شکل دی جا سکے۔ یہ پالیسی 2014 میں پیش کیے گیے مسودہ کی کڑی ہے جسے ایک مرتبہ پھر عوام کی تجاویز اور آراء کے لیے پیش کیا گیا ہے، حالانکہ 2014 ء میں نریندر مودی کے حکومت میں آنے کے بعد سے ہی نئے ہندوستان اور نئی تعلیمی پالیسی پر بحث شروع ہو گئی تھی۔ مسودہ کی بابت حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اگر اس کا نفاذ عمل میں آ جاتا ہے تو یہ اپنی نوعیت کا ایک آئیڈیل اور مثالی پالیسی ہوگا، حالانکہ اس پر ماہرین نے بہت سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مسودہ کے سر سری مطالعہ کے بعد جو نکات ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہے :

اسکولی تعلیمی نظام چار زمروں پر مشتمل ہوگا، تین سال کی عمر سے پری پرائمری کو تین سالوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک سال پری پرائمری 1 + 2 = ( 3 سال) دوسر ے حصّے کے طور پر تیسری، چوتھی، اور پانچویں جماعت کے 3 سالوں پر مشتمل ہوگا۔ تیسرے حصّے کے طور پر چھٹی، ساتویں اور آٹھویں 6 + 7 + 8 جماعتوں کو بھی تین سالوں پر مشتمل رکھا گیا ہے۔ چوتھا حصہ 10 + 2 پر مشتمل ہے، تاہم اس پالیسی میں 9 تا 12 ویں کلاس کے طلباء اسکولی طلباء کہلائیں گے 12 ویں کا جو پری یونیورسٹی یا انٹرمیڈیٹ کورس کہلاتا ہے کو ختم کردیا جائے گا اور پورے ملک میں اسکولی تعلیمی نظام رائج رہے گا، 12 ویں کے بعد ہی طلباء اسکول سے فراغت حاصل کر سکیں گے ہائیر سیکنڈری اور جونیر کالجز کا نظام ختم کرکے 11 ویں اور 12 ویں جماعتوں کو سکینڈری اسٹیج میں ملا دیا جائے گا۔

چھٹی جماعت سے سہ لسانی فارمولا اختیار کیا جائے گا، مقامی زبانوں کے علاوہ درج فہرست زبانوں میں سے علاقائی اعتبار سے زبانیں پڑھائی جائیں گی، سنسکرت کو بھی شامل کیا جائے گا۔ انگریز ی زبان پر توجہ کم کردی جائے گی، اساتذہ کو درس و تدریس کے علاوہ دیگر حکومتی و ترقیاتی کاموں کی زحمت نہیں دی جائے گی، ان کی الیکشن کے موقع پر ڈیوٹی یا سرکاری اسکولوں میں دو پہر کے کھانے کے انتظامات کی ذمہ داری بھی نہیں ہو گی۔ استاد کا کام صرف پڑھانا ہوگا اور معیاری تعلیم کی طرف توجہ مرکوز کرنا ان کی اہم ذمّہ داری ہوگی۔

جاری بی ایڈ نظام تعلیم میں تبدیلی لائی جائے گی، 3 سالہ بی ایڈ گریجویشن کورس کو ختم کرکے 4 سالہ بی ایڈ کورس متعارف کر ایا جائے گا۔ ہر سطح کے تعلیمی ارکان خواہ وہ میڈیکل، انجنیرنگ کالجز کے ہی کیوں نہ ہوں پڑھانے کے لیے بی ایڈ کرنا لازمی ہوگا۔ ہرسال اپنے پیشہ ورانہ مہارت کو فروغ دینے کے لیے 50 گھنٹے سی ڈی پی میں صرف کرنا ہوگا۔ موجودہ تمام غیر معیاری بی ایڈ اور ڈی ایڈ کالجز مکمل طور پر ختم کردیے جائیں گے۔

مجوزہ تعلیمی پالیسی میں ٹیچرس ٹریننگ اور معیاری تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ ڈاکٹروں کی طرح 4 سالہ بی ایڈ گریجویشن کے بعد ٹیچنگ میں 2 سالہ تدریسی عمل سے گزرنا ہوگا۔ بی ایڈ 6 سال میں مکمل ہو گاریجنل انسٹی ٹیوشن آف ایجوکیشن (RIES) سے دو سالہ کورس تکمیل کرنے والوں کو نوکریوں میں ترجیح دی جائے گی۔ نج کاری اور پبلک اسکول کی تعبیرو تشریح مکمل طور پر بدل دی جائے گی، جو اسکول حکومت اور عوامی عطیات سے قائم ہوں گے وہی لفظ ِ پبلک لکھنے کے مجاز ہوں گے۔ باقی تمام پرائیویٹ انتظامیہ والے اسکول جو اپنے اپنے اسکول کے ساتھ پبلک اسکول لکھیں گے اسے غیر قانونی مانا جائے گا۔ پرائیویٹ اسکولوں کو تعلیمی فیس طے کرنے کی آزادی ہوگی لیکن وہ فیس من مانے طور پر وصول نہیں کرسکیں گے۔

اعلی تعلیم و تحقیقی شعبوں میں تمام مروجہ نظام کو بدل کرایک نیا تعلیمی نظام متعارف کروایاجائے گا، جس کے مطابق 3 طرح کے ادارے ہوں گے، پہلے نمبر پر جدید تحقیقات و مطالعات کا کام بڑے پیمانے پرانجام دیا جائے گا۔ جس میں انڈر گریجویٹ اورپی ایچ ڈی نیز ماسٹر و پیشہ روانہ اور وکیشنل پروگرام ہوں گے۔ معیاری تعلیمی اداروں سے فارغ طلباء کو ان اداروں میں داخلہ دیا جائے گا جس میں نئی نسل کی ذہن سازی کے لیے عملی نمونہ تیار کیا جائے گا اوراگلے 20 سالوں میں ایسے 150 تا 300 اعلی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں گے۔ دوسرے نمبر پر تدریسی ادارے ہوں گے جس میں تدریسی صلاحیتوں اور اعلیٰ تعلیمی معیار کو فروغ دینے کے لیے اساتذہ تیار کیے جائیں گے، اس میں پیشہ ورانہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت لازمی ہوگی۔ تیسرے مرحلے میں ایسے ادارے ہوں گے جو انڈر گریجویٹ اوراختیاری مضامین کے مطابق چلائے جائیں گے۔

یونیورسٹیوں کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ اول: پبلک، دوم: پرائیویٹ، سوم: پرائیوٹلی ایڈڈ۔ یونیورسٹیز سے مروّجہ ایم فل ڈگری کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا اوراؤ۔ ڈی۔ ایل پروگرام (فاصلاتی تعلیم) کو فروغ دیا جائے گا نیز اسے آن لائن کے تحت مربوط کرکے طلباء کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کیا جائے گا، اس میں یوگا کو بھی اہمیت دی گئی ہے، جب کہ اخلاقی تعلیمات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس پالیسی کے مطابق کاروباری تعلیم، زندگی گزارنے کے مختلف مواقع جس میں باغبانی، الیکٹرک ورک، دست کاری اور صنعت وحرفت وغیرہ کو ابتدائی جماعتوں سے سکھانے کے انتظامات جائیں گے۔

عالمی سطح پر ہندوستان کو اعلیٰ مقام تک لے جانے کے لئے دنیا کی 200 سے زائد یونیورسٹیوں اور اس کی شاخوں کے طلبہ کو یہاں داخلہ دیا جائے گا۔ (یہ الگ بات ہے کہ ادھر گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ بیرونی ممالک میں بھیجے جانے والے طلبامیں ہندوستان سر فہرست ہے، یہاں سے ہر سال تقریباً تین لاکھ طلبہ بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جارہے ہیں، جب کہ اس کے بر عکس بین الاقوامی طلبہ کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہی یعنی 46 ہزار طلبہ بیرونی ممالک سے ہندوستان آکر تعلیم حاصل کررہے ہیں، جب کہ ہندوستان میں تحقیق کے معاملے میں ہماری جی ڈی پی کی آمدنی سے 0.84 فیصد 2008 ء سے لے کر 2014 ء تک 0.69 فیصد ہے۔ )

اس تعلیمی پالیسی میں نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کا بھی ذکر ہے۔ جو ریسرچ کرنے والی تنظیموں پر نگراں ہو گی، اس کی احیاء اور تشکیل آئین کے مطابق ہوگی۔ اس کے لئے سالانہ 20 ہزار کروڑ روپئے سیِڈ مَنی (ابتدائی تعاون) کے طور پر دیے جائیں گے۔ اس تعلیمی پالیسی میں ’راشٹریہ شکشا آیوگ‘ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کی تشکیل بھی پارلیمنٹ کے قانون کے مطابق ہو گی۔ اس کے سربراہ خود وزیر اعظم ہوں گے اور ایڈوائزری باڈیز کے ذریعہ اس کی تعمیل و تشکیل ہوگی۔

اس میں نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن، این سی ای آر ٹی، نیشنل ٹیسٹنگ ایجوکیشن، ہائر ایجوکیشن، گرانٹ کونسل اور ریاستی تعلیمات کے ارکان شامل ہوں گے۔ اس طرح اس مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیاہے کہ موجودہ وزارت تعلیم، فروغ انسانی وسائل کے بجائے اسے وزارت تعلیم کہا جائے گا۔ جس میں وزیر تعلیم اور راشٹریہ شکشن آیوگ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے علاوہ یونین منسٹر آف یونین ایجوکیشن مختلف لوگوں کی نامزدگی کریں گے۔

موجودہ تعلیمی پالیسی کے چیئرمین ڈاکٹر کستوری رنگن ہیں جبکہ دیگر ارکان میں پروفیسر وسودھا کامتھ جو ایس این ڈی ٹی یونیورسٹی کی سابقہ وائس چانسلر، پرنسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر منظوری بھارگوا جو حساب کی پروفیسر ہیں، رام شنکر کریل بابا صاحب امبیڈکر یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر، پروفیسر کٹھامنی ای وی جو اندراگاندھی نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر، شری کرشنا موہن ترپاٹھی یو پی ہائی اسکول و انٹرمیڈیٹ ایگزامینیشن بورڈ کے سابق چیئرمین، پروفیسر مظہر آصف جو جے این یونیورسٹی میں وسط ایشیائی ایشین اسٹیڈیز کے پروفیسر ہیں، پروفیسر کے این شری دھر جو کرناٹک نالج کمیشن کے سربراہ کے علاوہ ڈاکٹر شکیلا جو ڈپارٹمنٹ آف ایچ آر ڈی میں او ایچ ڈی کی حیثیت سے نیشنل ایجوکیشن پالیسی جیسے ذمہ داروں کے نام شامل ہیں۔

تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل مجوزہ جدید تعلیمی پالیسی دستاویز میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اور ان کے تعلیمی رویے کے بابت محض ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل بے ربط انداز میں چند باتیں درج ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے سلسلہ میں پالیسی سازوں نے مکمل طور پر معاندانہ رویہ اختیا ر کیا ہے۔ اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کی بقاء اور فروغ کے سلسلہ میں پالیسی بالکل خاموش ہے۔ ڈرافٹ کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ اب تمام اختیارات، مرکزی حکومت کے ہاتھ میں آجائیں گے۔ جس کے مطابق حکومت تعلیمی سیکٹر کے لئے اپنی پبلک فنڈنگ آہستہ، آہستہ ختم کردے گی۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم و ریسرچ پر قومی بجٹ کا 6 % خرچ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں 2 % بھی بجٹ نہیں دیا جاتا۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی کے مطابق آہستہ آہستہ سرکاری اداروں کو کم کردے گی، خدشہ اس بات کا ہے کہ جتنے ملک میں عطیہ جاتی ادارے ہیں انہیں بھی معیار تعلیم کے لازمی مطلوبات کے مطابق نہ رہنے کا بہانہ بناتے ہوئے اقلیتی تعلیمی اداروں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ نئی تعلیمی پالیسی 2019 ء میں ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہندوتوا تحریکات اور آر ایس ایس کے کارکنوں کا ہر تعلیمی ادارے میں عمل دخل ہوگا، پالیسی دستاویز میں اس کا ہلکا سا ذکر کیا گیا ہے کہ کارکنان تعلیمی اداروں کے درس و تدریس کے نظام پر نظر رکھیں گے۔ حالانکہ اس کی صراحت نہیں ہے کہ یہ کارکنان کون لوگ ہوں گے؟ ان کے کیا اختیارات ہوں گے؟

نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں دیے گئے تجاویز و مشوروں پر عمل آوری کے لئے جو ایکشن پلان ہونا چاہیے تھا اس کابھی کہیں ذکر نہیں ہے۔ حالاں کہ نئے نظم میں تقرری اوردیگر سہولیات کی فراہمی کا ذکر بھی ضروری تھا۔ ساتھ ہی ہر ریاست کے لئے علیحدہ ایکشن پلان ہونا چاہیے تھا۔ اس پالیسی کے نفاذ کے لئے ادارہ جات کی فائنانس ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیمات کے لئے دیا جانے والا بجٹ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے تناسب سے نہایت ہی کم ہے۔ جب تک بجٹ میں اضافہ نہ ہو تعلیمی پالیسی کے دیے ہوئے رہنما اُصول پر عمل آوری ناممکن ہے۔

اس پالیسی کے مطابق وہ قدیم ہندوستانی ویدک تہذیب اور نالندہ کے طریقہ ء تعلیم کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں میوسیقی اور رقص کی کلاسیں ایک ساتھ ہوں گی، سرسوتی پوجا، یوگا نیز ہندو، مذہبی تعلیمات کو لازمی طور پر شامل رکھنے کی بات بھی شامل ِ دستاویز ہے۔ مسلمانوں کے 87 % بچّے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اگر سرکاری اسکولوں کا بجٹ کم کردیا جائے یا پھر سرکاری نصاب میں ان تمام مذہبی تعلیمات کو لازم کردیا جائے، جیسا کہ اس وقت دیگر اہلیتی امتحانات میں کثرت سے یہ کام انجام دیے جا رہے ہیں تواس میں اندیشہ ہے کہ اسکریننگ ٹیسٹ کے نام پر مخصوص طلباء کو داخلے سے روک دیا جائے، اس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ دیگر اقلیتوں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جانے کا امکان ہے۔

اس معاملے میں ماہرین تعلیم اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کے علاوہ سماجی کارکنان میں بے چینی کا ماحول ہے اور اسی لئے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس میں تبدیلی لائی جائے اور پوری طرح سے چھان پھٹک کر ہی اسے پارلیمان میں پاس کیا جائے۔ ملک میں عیسائی مشنریوں کے لاکھوں تعلیمی ادارے چل رہے ہیں وہ بھی کافی پریشان ہیں، اس نئی تعلیمی پالیسی کے سلسلہ میں بہت سے ماہرین تعلیم سمیت کچھ سیاسی جماعتوں کو بھی شدید خدشات لاحق ہیں۔

یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ اس قدر حساس موضوع پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اور قائدین کی جانب سے جس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا جانا چاہیے تھا وہ دیکھنے میں نہیں ملا اوردیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی مسلم قائدین اور ملی تنظیموں کی جانب سے خاموشی اور سرد مہری کا رویہ ہی دیکھنے کو ملا، ایسا لگتا ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر مسلم زعماء اور قائدین ملّت تعلیمی پالیسی 2019 ء کو بین السطور پڑھنے سے قاصرہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ اس پر احتجاج کرتے اور بڑی تعداد میں سیکولر طبقے کو ساتھ لے کر ہندوستان کو مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے بچانے اور نونہالوں کے ذہن کو مسموم کرنے والے عمل کے خلاف آواز اٹھاتے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah