غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں ​


سوشل میڈیا جہاں اپنے ساتھ امکانات کا ایک جہاں لے کر طلوع ہوا وہیں اس سے پیدا ہوئے منفی رجحانات بھی بے شمار ہیں۔ پاکستانی سیاست کے تناظر میں خصوصاً یہ صورت احوال حوصلہ افزا ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک تشویش ناک بھی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں کتب بینی کا رجحان خطرناک حد تک کم ہے، جب اپنی محدود سیاسی معلومات اور تجزیاتی صلاحیتوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر تکیہ کرتا ہے تو اس کا حال اس منصف کے مانند ہوتا ہے، جسے ہر مدعی درست معلوم ہوتا ہے۔ یہ صورت احوال کئی فکری مغالطوں کو جنم دیتی ہے جس سے ہماری اکثریت اس وقت دو چار ہے۔

چند روز گزرے برادرم ظہیر الدین نے محبت اور شوق کے ساتھ ’’ہم سب‘‘ پر شایع شدہ اپنا تجزیاتی مضمون ”ڈٹ کے کھڑا ہے دانشور“ ناچیز کو ”ٹیگ“ کیا۔ گو کہ بہت عرصے سے مصروفیات کے باعث اور تعلقِ خاطر ”بچانے“ کے سبب سیاسی موضوعات پر رائے زنی سے اجتناب برتتا رہا، زندگی خاصی بہتر محسوس ہوئی، مگر اس بار دامن بچا کر گزرنا ممکن نہ رہا۔ مضمون پڑھ کر ایک طرف تو بے حد خوشی ہوئی کہ نثر نویسی، محاوروں اور مصرعوں کا امتزاج برادرم کے شایانِ شان لگا، لیکن دوسری طرف اس نثر نویسی کے پردے میں جو واردات ڈالی گئی، اس پر افسوس بھی ہوا اور اپنا اختلافی موقف پیش کرنا ہی درست محسوس ہوا۔

اپنے تجزیے میں ظہیر الدین نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو بڑی مہارت سے کوزے میں بند کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا ہے کہ ماضی میں ایک بیورو کریٹ اپنے چند حواریوں کے ہم راہ آمریت کو جواز فراہم کرتے رہے اور یہی فریضہ حال میں دو ریٹائرڈ بیورو کریٹ جمہوری اقدار پر تنقیدی کالم لکھ کر خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک بیورو کریٹ سیاستدان ہوتا ہے؟ یا کہ ریاست کا ملازم؟

قدرت اللّٰہ شہاب مرحوم ایک انتہائی قابل بیورو کریٹ اور ادیب تھے، انہوں نے اپنی خود نوِشت ”شہاب نامہ“ کے دیباچے میں خود پر لگائے گئے الزامات کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ ان واقعات کی تفصیلات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ جنرل یحیٰی خان کے اقتدار سنبھالنے پر وہ اپنی حق گوئی کی بنا پر معتوب ٹھہرے اور انہیں کئی سال جلا وطنی کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں۔ ہاتھی کے پیر میں اپنا پیر رکھنے والوں کے ساتھ ایسا تو نہیں ہوتا۔ شہاب صاحب کے لکھے افسانوں کو احمد ندیم قاسمی نے منٹو کے ہم پلّہ قرار دیا ہے۔

جہاں تک تعلق ہے شہاب صاحب کے حلقہ یاراں کا جس میں ممتاز مفتی، اشفاق احمد، اور بانو قدسیہ جیسے عظیم مصنفین شامل ہیں، تو پچھلے کچھ سالوں سے ایک شعوری کوشش مختلف پلیٹ فارم پر ایسی نظر آتی ہے، جس کا مقصد کسی بھی طریقے سے ان مایہ ناز قلم کاروں کو بے وقعت ثابت کرنا ہے۔ اس کا بظاہر مقصد ان کی سرکاری نوکریوں سے زیادہ زندگی کے بارے میں ان کے نظریات، ان کی ادبی تعلیمات، اور ان کی مذہب و تصوف سے محبت ہے۔ کبھی کسی نئے ”ابھرتے ہوئے“ ادیب کا انٹرویو نشر ہوتا ہے، تو کبھی یہی کام مختلف ویب سائٹس پر مضامین داغ کر کیا جاتا ہے۔

وجہ جو بھی ہو مگر ایک بات واضح ہے کہ اگر کوئی ان شخصیات سے فکری اختلاف رکھتا ہے اور ان کے افکار کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو ایک وسیع و عریض ادبی میدان موجود ہے۔ معیاری ادب تخلیق کیجیے اور اپنے خیالات کا پرچار کیجیے، کس نے روکا ہے؟ مگر اگر صرف کردار کشی اور کیچڑ اچھالنا ہی مقصود ہے، تو جان لیجیے کہ ان ہستیوں کا ادبی قد کاٹھ بہت اونچا ہے، ان کی تحریروں نے پاکستانی معاشرے کی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اور ان کی تصانیف کے مداحوں کی تعداد بے شمار ہے۔ چناں چہ ایسی مذموم اور ادنیٰ کوششوں کا معاملہ چاند پر تھوکنے ہی کے مترادف ہے۔

اب بات کرتے ہیں ان ریٹائرڈ بیورو کریٹس کی، جو زمانہ حال میں ڈٹ کر کھڑے ہیں، یعنی اظہار الحق اور اوریا مقبول جان، تو جو قارئین بھی ان دو کالم نگاروں کے مستقل قاری ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ان دو کے سیاسی افکار سے اختلاف کے با وجود ان پر کسی بھی سیاسی جماعت یا اسٹبلشمنٹ کے خوشہ چیں ہونے کا الزام مضحکہ خیز ہی لگتا ہے۔ در حقیقت ہمارے معاشرے میں سیاسی تقسیم اتنی گہری اور عدم برداشت اتنی زیادہ ہو گئی ہے، کہ جو بھی ہماری سیاسی سوچ کے مخالف لکھتا ہے یا ہماری پسندیدہ سیاسی جماعت پر تنقید کرتا ہے، وہ ہمیں مخالف کیمپ کا فرد لگتا ہے۔

جن مخصوص کالموں کا برادرم ظہیر الدین نے حوالہ دیا، وہ کسی بھی طور اسٹبلشمنٹ یا پاکستان تحریک انصاف کے حق میں نہیں بلکہ ہمارے منافقانہ جمہوری طرزِ عمل پر کھلی تنقید کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ صرف انہی چند گنے چنے لکھنے والوں کا خاصہ ہے جن کے مفاد کسی بھی جماعت یا ادارے سے وابستہ نہیں ہیں۔ ایک صحافی اور دانشور کی تحریریں ہی اس کی پہچان ہوتی ہیں اور جو لوگ انہیں باقاعدگی سے پڑھتے ہیں، وہ با آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہاں قلم آزاد ہے اور کہاں اس کی قیمت لگ چکی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، چوں کہ معاشرے کی اکثریت اخبارات و کتب کے مطالعے سے محروم ہے، اس لئے وہ اس قسم کے تجزیات پر جلد ایمان لے آتے ہیں، بجائے اس کے کہ اس کا منصفانہ تجزیہ کر سکیں۔

یہاں موقع کی مناسبت سے چند باتیں اور گوش گزار کرنا ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر آمریت کے برخلاف زیادہ تنقید کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا مختصر جواب تو وہی ہے جو پہلے بیان کیا، منافقانہ جمہوری طرزِ عمل۔ اگر آپ پاکستان کی تاریخ کا کھلے قلب و ذہن سے مطالعہ کریں تو ہماری موجودہ صورت احوال میں آمریت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا بھی بھرپور حصہ نظر آتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں خود کو جمہوری بنیادوں پر استوار کر کے سیاسی اداروں میں بدل لیں تو طاقتور اداروں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہیں، ورنہ تو یہ پہیا یوں ہی گھومتا رہے گا۔

ایک فوجی حکمران کی مدت محدود ہوتی ہے۔ بقول زرداری صاحب کے ”تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے، ہم نے یہیں رہنا ہے“۔ اس کے برعکس سیاسی حکمرانوں کی آمرانہ ہوس نسل در نسل منتقل ہوتی ہے اور جمہوری آمریت کا مظہر ہوتی ہے، جس کا بھر پور مظاہرہ ہم ملک دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومتوں میں دیکھ چکے ہیں جو کہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ نتیجتہََ ہر دو حکومتیں اپنے اپنے ملک میں انتہائی افسوس ناک انجام سے دو چار ہوئیں۔

ایک اور مغالطہ جو پیدا کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ لکھاری وہی مستند اور دلیر ہے جو افواج کو کسی نہ کسی طرح سے تنقید کی زد پر رکھے۔ در حقیقت تجزیہ کار وہی ہوتا ہے، جو ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو اور ہر صحیح بات کی کھل کر تعریف اور غلط پر تنقید کر سکے۔ اظہار الحق اور اوریا مقبول جان کی تحریروں میں یہ رنگ نمایاں ہے۔ اس وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں صحافیوں اور دانشوروں کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم اتنی شدید اور واضح ہے کہ چند آزاد منش حضرات کا دم غنیمت ہے، اور انہیں بھی ہم متنازِع ثابت کرنے پر تلے ہیں۔

ایک صاحب علم کا بنیادی مقصد عوام کی فکری تربیت اور ان کے ادبی ذوق کی تسکین نیز شوق مطالعہ کو مہمیز دینا ہوتا ہے، نہ کہ فکری و سیاسی وابستگی کی بنیاد پر مغالطوں کی تشہیر۔

آخر میں گزارش یہی ہے کہ اپنے تجزیات اور مضامین کو ذاتی تعصبات سے بالاتر ہو کر تحریر کریں۔ اگر خود کو صد فی صد درست سمجھتے ہوئے قطعیت کے ساتھ تجزیہ کیا جائے گا تو اس میں دیانتداری کا فقدان واضح نظر آئے گا۔ عوام کے ذہنوں میں اپنے اخذ کردہ نتائج راسخ کرنے کے برعکس انہیں خود مطالعے کی ترغیب دیں تا کہ تاریخ سے آگاہی اور سیاسی پختگی پیدا ہو۔ یہی پختہ فکر سماجی سطح پر وہ ماحول پیدا کرے گی جو ہمیں شخصیت پرستی سے نجات دلانے اور جمہوری رویوں پر زور دینے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔

اسی بارے میں: ڈٹ کے کھڑا ہے دانشور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).