جنگ یمن: کیا گذشتہ چار سالوں سے جاری اس جنگ سے کچھ حاصل بھی ہوا یا صرف یمنی عوام نے بھاری قیمت ادا کی؟


سعودی اور اماراتی ٹینک

سعودی اور اماراتی افواج حوثی باغیوں کے خلاف اتحادی ہیں

اس موسم گرما میں یمن سے اماراتی افواج کا جزوی انخلا، حالانکہ جنگ ابھی جاری ہے، فطری طور پر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ اس جنگ سے کسی کو کچھ حاصل بھی ہوا یا نہیں؟

یہاں تک کہ سعودی عرب کے قریبی حلیف متحدہ عرب امارات نے بھی 22 جولائی کو کہہ دیا کہ ‘نہ تو فتح آسان تھی اور نہ ہی امن آسان ہوگا۔’

یمن میں جاری جنگ کے بارے میں مزید پڑھیے

’یمن کی بیوقوفانہ جنگ سعودی عرب کے فائدے میں نہیں‘

’یمن میں تمام فریق جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے‘

یمن میں ’غذائی قلت سے 85000 بچے ہلاک‘

جنگِ یمن کا یہ پانچواں سال ہے اور اسے صریحاً ہمارے عہد کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا گیا ہے۔ اس جنگ میں ہلاکتوں کا تخمینہ 10 ہزار سے 70 ہزار افراد کے درمیان ہے، جس کی اکثریت یمنی شہریوں پر مشتمل ہے اور اندازہ ہے کہ ان ہلاکتوں میں سے دو تہائی سعودی سرکردگی میں کیے گئے ہوائی حملوں میں ہلاک ہوئی۔

ہیومینیٹیرین افیئرز کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل مارک لوکوک کے مطابق یہ جنگ 30 سے زیادہ محاذوں پر لڑی جا رہی ہے۔

یمن

اس جنگ میں 33 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور 80 فی صد سے زائد شہریوں کو امداد اور حفاظت کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک کروڑ افراد کی بقا کا انحصار پہلے ہی غذائی امداد پر ہے۔

تو عالمِ عرب کا وہ ملک جو پہلے ہی غریب ترین تھا، اب غربت اور معاشی تباہی کی کھائی میں مزید نیچے گر چکا ہے۔

اس برس جنگ کا دائرہ سعودی حدود تک پھیل چکا ہے اور حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے سرحدی قصبوں، بحیرۂ احمر اور بعض اطلاعات کے مطابق سعودی دارالحکومت ریاض اور یو اے ای تک کو اپنے میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔

یمن کی حکومت کے نزدیک، جسے اقوام متحدہ، سعودی عرب اور یو اے ای کی حمایت حاصل ہے، اس جنگ کا مقصد ایک ہی رہا ہے، اور وہ ہے ایران نواز حوثیوں کو ملک پر قبضے سے روکنا۔

وہ اس مقصد میں کامیاب تو رہی ہے، البتہ یمنی عوام کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔

سعودی حملوں سے ہونے والی تباہی

سعودی سرکردگی میں کیے گئے حملوں سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں اور تباہی ہوئی

مارچ 2015 میں سعودی سرکردگی میں ہونے والے حملے اس جنگ کا نقطۂ آغاز نہیں تھے۔ بلکہ اس کی شروعات اُس وقت ہوئیں جب ملک کے شمالی پہاڑوں سے ایک غیرمعروف یمنی قبائلی گروہ نے دارالحکومت صنعا پر دھاوا بول کر قانونی حکومت کو وہاں سے نکال دیا۔

اس کے بعد یمن کے معزول سابق صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار افواج کی مدد سے حوثیوں نے یمن کے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا۔

ایران کے علاقائی حریف سعودی عرب کے لیے یہ اس کی جنوبی سرحد پر ایران نواز بغاوت کے مترادف تھا۔ لہذا حکمراں شہزادوں نے کارروائی کا فیصلہ کیا۔

اُس وقت سعودی عرب کے ناتجربہ کار وزیر دفاع اور حالیہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عجلت میں ایک مسلم ممالک کا عسکری اتحاد تشکیل دے دیا اور حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر تباہ کن حملے شروع کر دیے۔

جب میں اپریل 2015 میں ریاض میں یمن جنگ کے حوالے سے قائم آپریشن سینٹر گیا تو اتحاد کے ترجمان کو پُراعتماد پایا کہ چند ہی ماہ میں حوثی مزاحمت ڈھیر ہوجائے گی اور وہ امن کے لیے گِڑگڑائیں گے۔

لیکن اب چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود فضائی حملے جاری ہیں۔ امن مذاکرات تو ہوئے مگر امن نہیں آیا۔

تو کیا جنگ لاحاصل رہی؟ یقیناً باقی دنیا اسے ایسے ہی دیکھتی ہے۔

یمن

حقوق انسانی کے کارکنوں نے برطانوی حکومت کو بھی عدالت میں گھسیٹا کیونکہ وہ سعودی فضائیہ کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتی ہے، اور سعودی فضائیہ نے متعدد مواقعوں پر سکولوں، ہسپتالوں، بازاروں اور جنازوں پر بم برسائے جس سے عام شہری ہلاک ہوئے۔

حوثیوں پر بھی جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے مگر برطانیہ انھیں کسی طرح کی فوجی کمک نہیں دیتا۔

یو اے ای نے یمن میں سات ہزار فوجی تعینات کیے تھے مگر اب اس کا دستہ محض چند سو فوجیوں پر مشتمل ہے اور حوثیوں سے لڑنے کے لیے سعودی عرب اور اس کے یمنی حلیفوں کو چھوڑ دیا ہے جو دارالحکومت صنعا اور ملک کے شمال میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہیں۔

یو اے ای کا خیال ہے کہ اس جنگ میں حصہ لے کر اس نے کئی چیزیں حاصل کر لی ہیں۔ اس سے حوثیوں کو سارے ملک پر قبضہ کرنے سے روکا گیا، کیوں کہ اگر ایسا ہو جاتا تو افریقہ اور عرب کے درمیان آبنائے باب المندب پر ایران کا کنٹرول قائم ہو جاتا۔

اس کے علاوہ اس نے یمن کے زیادہ تر حصہ کو ‘آزاد’ کروایا ہے اور جزیرنما عرب میں القاعدہ کی بیخ کنی کی ہے۔

یمن

البتہ سعودی عرب کے لیے، جس نے اس جنگ میں اربوں ریال جھونک دیے ہیں، اس جنگ کے ثمرات مبہم ہیں کیونکہ اب حوثی ڈرون اس کے شہروں اور ہوائی اڈوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

لندن میں قائم تھِنک ٹینک روئل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں مشرق وسطی کے امور کے ماہر مائیکل سٹیونز کا خیال ہے کہ یہ جنگ سعودی عرب کے لیے بھی اتنی ہی نقصان دہ رہی ہے جتنی کہ یمن کے لیے۔

وہ کتہے ہیں: ‘اس جنگ سے سعودی عرب کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اگر عسکری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ریاض کی پوزیشن 2015 کے مقابلے میں کمزور ہے۔’

گزشتہ دسمبر میں سٹاک ہوم امن معاہدے کا بڑا چرچا ہوا مگر یہ بھی دیرپا امن تو ایک طرف طویل جنگ کروانے میں بھی ناکام رہا۔

یہ بحث جاری رہے گی کہ جنگِ یمن میں کس نے کیا پایا اور کیا کھویا، اور عوام کو یہ عذاب مزید جھیلنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp