زلمے خلیل زاد: ’افغانستان میں امن معاہدے کی کوشش ہے، فوجی انخلا کے معاہدے کی نہیں’


زلمے خلیل زاد

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ معاہدے کی تکمیل چاہتے ہیں اور امریکہ بھی ‘ایک اچھے معاہدے کے لیے تیار ہے۔’

افغانستان میں امن کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن معاہدے کے لیے کوشش کر رہا ہے نہ کہ فوجی انخلا کے لیے۔

ٹوئٹر پر انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے ‘ہماری افغانستان میں موجودگی کچھ حالات سے مشروط ہے، اور کوئی بھی انخلا مشروط ہی ہوگا۔’

زلمے خلیل زاد کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ معاہدے کی تکمیل چاہتے ہیں اور امریکہ بھی ‘ایک اچھے معاہدے کے لیے تیار ہے۔’

جمعے کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے تحت ملک سے ہزاروں امریکی فوجی واپس بلانے پر رضامند ہے۔

واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد نے جمعے کے روز پاکستان میں وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی تھی اور انھیں افغان امن عمل پر پیشرفت سے آگاہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’طالبان پورے افغانستان پر قبضے کے خواہاں نہیں ہیں’

افغان طالبان: ’پاکستان دعوت دے تو جائیں گے‘

کیا ’دنیا کے مہلک ترین محاذ‘ میں امن آ سکے گا؟

امریکی حکام اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک سات مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں جبکہ حالیہ دور مذاکرات کا آٹھواں دور ہوگا۔

امریکہ چاہتا ہے کہ امن معاہدے میں اس بات پر اتفاق ہو کہ افغان طالبان القاعدہ سے لاتعلقی کا اعلان کریں اور یہ بھی یقینی بنائیں کہ افغان سر زمین پر غیر ملکی دہشت گردوں کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔

اتحادی افواج کا دعویٰ تھا کہ طالبان نے افغانستان میں القاعدہ کو پناہ دے رکھی تھی۔

جون میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ یکم ستمبر سے پہلے معاہدہ کرنے کا سوچ رہی ہے۔

طالبان

دوحہ میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات میں طالبان کا وفد شریک تھا

مگر قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں جس کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا افغان حکومت اور طالبان ایک ساتھ بیٹھ کر اندرونی مسائل مثلاً دوبارہ انتخابات یا اقتدار میں شراکت پر بات کرتے ہیں یا نہیں۔

اب تک صدر اشرف غنی کی زیرِ سربراہی افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں کیے ہیں کیونکہ افغان طالبان کے نزدیک یہ حکومت قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔

مگر افغان حکومت کی جانب سے سرکاری حکام، سول سوسائٹی رہنماؤں، اور دیگر اہم شخصیات پر مبنی ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس کے طالبان کے ساتھ آنے والے ہفتوں میں بین الافغان مذاکرات متوقع ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں دوحہ میں ہونے والے دو روزہ بین الافغان مذاکرات میں افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان اور افغان وفد کے درمیان ایک نقشۂ راہ پر اتفاق ہوا تھا۔

دوحہ اور جرمنی کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس کا اختتام ایک مشترکہ اعلامیے پر ہوا جس کے مطابق افغانستان میں اسلامی اُصولوں اور انسانی حقوق کے احترام، مذاکرات جاری رکھنے، فریقین کی جانب سے سخت بیانات نہ دینے، سرکاری اداروں پر حملے نہ کرنے اور پرتشدد واقعات میں کمی پر اتفاق کیا گیا۔

ان دو روزہ مذاکرات میں 53 رکنی افغان وفد اور طالبان کے 17 رکنی وفد نے حصہ لیا۔

اگرچہ افغان وفد میں تین حکومتی نمائندے بھی تھے، لیکن ان کی شرکت انفرادی طور پر تھی۔ اس سے پہلے بھی دو بین الافغان مذاکرات ہوئے ہیں، لیکن اُن میں افغان حکومت کے نمائندے شریک نہیں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp