منٹو کے افسانے ”ہتک“ کا ردِ تشکیلی مطالعہ


سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”ہتک“ ناصرف منٹو بلکہ اردو ادب کے چند بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔ منٹو کے بارے میں عام طور پر جو خیال پایا جاتاہے وہ یہ ہے کہ منٹو کے افسانوں کے کردار نہ نوری ہوتے نہ ناری بلکہ خالص خاکی ہوتے ہیں۔ منٹو ایک ماہر نفسیات دان کی طرح اپنے کرداروں کے نفسیاتی رویوں کی پرتیں اس طرح سے کھولتا ہے کہ بظاہر ”رام“ نظرآنے والا کردار کسی موڑ پر بالکل ”راون“ بن جاتا ہے اور ”روان“ کہیں ”رام“ نظر آنے لگتاہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کے نظریے تحلیل نفسی کے تحت منٹو اپنے کردار وں کے لاشعور میں چھپی ناآسودہ اور ان کہی خواہشات اور جذبات کو سامنے لے کر آتا ہے۔ کرداروں کے اعتبار سے اگر منٹو ایک ماہر ِ نفسیات ہے تو اپنے معاشرے کے لیے وہ ایک بے رحم جراح ہے جو ”جراحی کرتے ہوئے کلوروفارم بھی استعمال نہیں کرتا۔“

تفہیم منٹو کے ذیل میں جو عمومی نظریہ ہمارے ہاں پایا جاتاہے اُس کے مطابق اس افسانے ”ہتک“ کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ ”سوگندھی“ نام کی ایک جسم فروش عورت ہے۔ جسے ایک سیٹھ دھتکار کر چلا جاتا ہے۔ اس دھتکار سے اس کی انا ء کو شدید چوٹ پہنچتی ہے اور اس کو نفسیاتی طور پر ناقابل ِ برداشت صدمہ پہنچتا ہے۔ جس کے بعد وہ اس سیٹھ سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ لیکن جب اس سیٹھ تک رسائی کی کو ئی صورت نظر نہیں آتی۔ تو پھر اپنی ٹھیس کھائی ہوئی انا ء کی تسکین کے لیے وہ اپنے عاشقوں سے انتقام لیتی ہے۔ ویسے ہی دھتکار کر ان کی تصویریں اپنے کمر ے باہر پھینکتی ہے۔ ان چہرے کے خدو خال کا مذاق اڑاتی ہے اور حقارت سے پیش آتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے وہ اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر بحال کرتی ہے اور پھر ایک خارش زدہ کتے کو گلے لگا کر سو جاتی ہے۔ یو ں یہ افسانہ سوگندھی کے نفسیاتی مسائل اور معاشرے کی بے حسی کی ایک تصویر پیش کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن اگر اس افسانے کو اس وقت کے سیاسی و سماجی منظر نامے کو سامنے رکھ کر پڑھا جائے تو یہ افسانہ معنی کے کئی در وا کرتا ہے۔ میرے خیال میں اس افسانے کو منٹو نے برصغیر پاک و ہند پر انگریزی استعماریت کے تنا ظر میں لکھا ہے۔ سوگندھی نامی طوائف دراصل برصغیر پاک وہند کا استعارہ ہے۔ جس نے ہر باہر سے آنے والے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے خوش آمدید کہا ہے۔ اور اپنی عزت، دولت اور حرمت سب کچھ اس کی جھولی میں ڈالی ہے۔ آریا حملہ آوروں سے لے کر انگریزوں تک برصغیرنے سب کے سامنے سوگندھی کی طرح خود کو پیش کیا ہے۔ منٹو جب سوگندھی کے خدو خال بتاتا ہے تو اس کی بھری بھری چھاتیوں کاخاص ذکر کرتا ہے۔ جو واضح طور پر برصغیر کے قدرتی وسائل اورذخائر سے مالا مال ہونے کی طرف اشارہ ہے، جو گاہک/ حملہ آوروں کے لیے خاص کشش کا باعث بنتا ہے۔ جس کو دیکھ کر وہ کھنچے چلے آتے ہیں۔

اب ایک مدت تک بہت سے لوگ سوگندھی کے حسن و شباب کے مزے لوٹتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آتاہے جب یہ حسن و جمال ڈھلنا شروع ہو جاتاہے۔ پھر ایک سیٹھ جو کار پہ آتا ہے اس کو دھتکار کر چلا جاتاہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک مدت تک استعمارکار اس برصغیر کی مال و دولت کے مزے لوٹتے رہے۔ یہاں کے کپڑے، ہیرے جواہرات، مصالحہ جات اور طرح طرح کے نوادرات لوٹتے رہے اور جب یہاں سے لوٹنے کو کچھ نہ رہا تو پھر سوگندھی کی طرح برصغیر کو بھی حقارت سے ٹھکرا کر چلے گئے۔

سیٹھ کی یہ دھتکار سوگندھی کے لیے فکر کی نئی راہیں کھولتی ہے۔ وہ اس سیٹھ سے انتقام لینے کا سوچتی ہے۔ مگر اس کو جلد سمجھ آجاتی ہے کہ اس سیٹھ سے انتقام لینا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ تو پھر وہ اپنے دوسرے عاشقوں کو دھتکار کر اپنی ہتک کا انتقام لیتی ہے۔ ان عاشقوں میں مادھولال سب سے اہم ہے۔ اب مادھو لال کا کردار بھی بڑا غور طلب ہے کہ وہ پولیس کانسٹیبل ہے۔ پولیس کا محکمہ استعمارکار کاخاص محکمہ رہا ہے۔ جس کے ذریعے وہ اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ لوٹ ما ر کرتاہے اور بغاوت کچلتاہے۔ اب استعمار کار سے انتقام نہ لے سکنے بعد وہ اس کے وضع کردہ نظام کے گماشتوں سے بغاوت کا اعلان کرتی ہے۔ انہیں اسی شدت سے دھتکار دیتی ہے۔ اور پھر ایک خارش زدہ کتے کو گلے لگا لیتی ہے۔

یہ خارش زدہ کتا دراصل مقامی استعمارزدہ انسان کا استعارہ ہے۔ جسے اس نے کبھی قابلِ التفات نہیں سمجھا۔ اب آخر کار سوگندھی کو سمجھ آتی ہے اور وہ اسی مقامی مفلوک الحال اور اپنے جیسے دھتکارے ہوئے طبقے کو گلے لگا لیتی ہے۔ یہاں شاید منٹو فرانز فینن کی طرح مقامی لوگو ْں کو استعمارکار کے وضع کردہ قوانین سے بغاوت کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔

اس افسانے میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ اس افسانے کے تقریباً ہر کردار کے نام اور کام سے اس کا مذہب پتا چلتا ہے سوائے اس سیٹھ کے۔ سوگندھی کے کمرے میں گنیش جی کی تصویرہے اور وہ اپنی کمائی کو ہر بار گنیش جی کی تصویر پر سے وار تی ہے۔ اس طرح سوگندھی کوپوجا کرنے سے سکون ملتاہے۔ اسی طرح باقی کردار وں کے بھی مذہب نظر آتے ہیں۔ لیکن سیٹھ کی بس رعونت، حقارت اورغرور نظر آتا ہے۔ یہاں منٹو شاید اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مذہب صرف غریب غربا اور پسے ہوئے طبقات کا مسئلہ ہے۔ اور وہی اس کو سینے سے لگائے پھر رہے ہیں معاشی طور پر آسودہ لوگ اس فکر سے ماورا ء ہیں۔

اسی طرح یہ افسانہ سوچ اور فکر کی راہیں کھولتاہے۔ ممکن ہے منٹو نے سوگندھی اور سیٹھ کے درمیان پائی جانے والی نفرت کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی کشمکش کی طرف اشارہ کیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے سیٹھ اور سیٹھ کی کار ایک تہذیب کی نمائندگی کررہی ہے اور سوگندھی ایک دوسری تہذیب کی۔ یوں سیٹھ اور سوگندھی کی مڈبھیڑ دراصل دوتہذیبوں کا ٹکراؤ ہے۔ غرض یہ افسانہ اپنے دامن میں بہت وسیع مفاہیم اور معانی سموئے ہوئے اسے محض ایک جسم فروشی عورت کا انتقام سمجھ لینا کافی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).