مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کرنے کی کوشش


امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے کشمیر کے مسئلے میں ثالثی کی پیشکش پر بھارت میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔ اگرچہ فورا حکومتی ترجمانوں کی جانب اس کی تردید آ گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد بھارتی میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے زور و شور سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بذاتِ خود پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اس امر کی وضاحت کریں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مودی نے حالیہ انتخابی مہم میں اپنے انتہا پسند ہندو حمایتیوں کے روبرو ایک سے زائد بار کہا تھا کہ وہ اس مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی آئین میں مقرر کی گئی مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کر دیں گے۔

صدر ٹرمپ کے عمران خان کے سامنے اس بات کے ذکر کے بعد کے مودی کشمیر پر ان کی ثالثی کے خواہش مند ہیں، بھارتی وزیراعظم کو اپنے عوام کے سامنے بہت سبکی اٹھانا پڑی۔ مودی چونکہ بہت سی وجوہات کے باعث ٹرمپ کو براہ راست جھوٹا پکارنے یا ان کی بات رد کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ لہذا تلملاہٹ میں انہوں نے کشمیر میں ریاستی دہشتگردی اور لائن آف کنٹرول پر جارحیت میں تیزی لانے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین میں حاصل جداگانہ حیثیت ختم کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ ہفتے مودی کے مشیرِ سلامتی امور اجیت دوول کے دورہ کشمیر کے بعد سے اب تک تقریبا چالیس ہزار تازہ دم بھارتی فوجی وادی میں مزید بھیجے جا چکے ہیں۔ بھارت نے اپنی فوج اور فضائیہ کو علاقے میں ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ سری نگر اور وادی کے دیگر کے تمام اہم داخلی اور خارجی راستوں کو بھارتی پولیس نے مقامی پولیس کے ساتھ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق لائن آف کنٹرول پر تعینات فوجیوں کو بھی چوکس رہنے کو کہا گیا ہے۔

جمعرات کی شام سے ہندوستانی فضائیہ کے لڑاکا طیارے مقبوضہ کشمیر میں گشت کر رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے پار پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں پر بھی بلا اشتعال شدید شیلنگ کی جا رہی ہے۔ خبریں ہیں کہ کارگل جنگ کے بعد پہلی بار بھارت کی طرف سے دور مار بوفورس توپوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے کی گئی فائرنگ سے کئی شہادتیں ہو چکی ہیں۔

دوسری جانب جدوجہد کشمیر کا ”بندوبست“ کرنے کے لیے مودی سرکار سیاسی محاذ پر بھی سرگرم ہے۔ بیس جولائی کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کے دورے میں آرٹیکل 370 اور 35 اے میں تبدیلی لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہاں آرٹیکل 35 اے کی وضاحت ضروری ہے تاکہ یہ سمجھنے میں مشکل نہ رہے کہ اس کی غیر موجودگی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے کس قدر مضر ہو سکتی ہے۔ آرٹیکل 35 اے مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو خصوصی حقوق فراہم کرتا ہے۔

بھارت کے آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنے ”مستقل شہری“ کی تعریف طے کرے۔ 1954 ء میں بھارتی صدر کے ایک حکم کے بعد آرٹیکل 35 اے کو آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ صاف لفظوں میں یہ کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 35 A ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے اور غیر ریاستی باشندوں پر غیر منقولہ جائیداد کی خرید پر پابندی عائد کرتا ہے۔ یہ آرٹیکل درحقیقت مہاراجہ ہری سنگھ کے قانون باشندہ ریاست سے اخذ کیا گیا ہے اور ریاستی باشندوں کو وہی حقوق و مراعات دیتا ہے اور غیر ریاستی باشندوں پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کرتا ہے جنہیں مہاراجہ ہری سنگھ کے قوانین باشندہ ریاست کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ یہ آرٹیکل 14 مئی 1954 کو بھارتی آئین میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے جب 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کیا تو دفاع، خارجہ اور مواصلات کے شعبے بھارت کے سپرد کیے تھے۔ اس عارضی الحاق کے معاہدے کے تحت باقی تمام معاملات میں ریاست آزاد و خود مختار تھی۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 1954 کا ملحقہ آئینی آرڈر دراصل ریاست جموں و کشمیر اور بھارتی وفاق کے باہمی تعلقات کا تعین کرتا ہے۔ شیخ عبداللہ کی حکومت اور جواہر لال نہرو کی حکومت کے درمیان 1952 میں طے پانے والے معاہدے کے مزید اختیارات بھارت کے سپرد کیے گئے۔ 1952 کے اس معاہدے میں طے کی جانے والی باتوں کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے 14 مئی 1954 کو نافذ کیا گیا۔ اس آئینی حکم نامے کے ذریعے بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی اور آئینی تعلقات کا تعین کیا گیا۔ آرٹیکل 35 A بھی اسی حکم نامے کا ایک حصہ ہے۔

بھارت میں آج کل یہ آرٹیکل پھر ہدف تنقید ہے۔ کئی انڈین کالم نگار اور مبصرین کہہ رہے ہیں کہ بھارتی آئین کے ساتھ یہ ”انوکھا کھلواڑ“ جواہر لال نہرو نے اپنے پرانے دوست شیخ عبداللہ کو نوازنے کے لئے کیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ متنازعہ علاقہ ہونے کے سبب ہی پاکستان کو ہمیشہ سے کشمیر میں کھل کھیلنے کا موقع میسر رہا۔ وہاں مسلسل ہندو مخالف حکومتیں بر سر اقتدار رہی ہیں۔ جہاں بھارت سرکار کو بے پناہ اخراجات اٹھانا پڑ رہے ہیں اور آدھ ملین سے زائد سپاہ مستقل طور پر متعین ہے۔

شور مچایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کا شوشہ بھی بے بنیاد ہے، کیونکہ جب سرکار کی نالائقی کے سبب مقامی ہندو نقل مکانی پر مجبور ہوں گے تو لازما ہر طرف مسلمان ہی مسلمان دکھائی دیں گے۔ اس پر بھی تنقید جاری ہے کہ ہندوستان بھر میں جہاں جی چاہے کوئی بھی شخص جائیداد خرید سکتا ہے، لیکن کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت نہیں۔ کہا جا رہا کہ کشمیر کی پسماندگی کی اصل وجہ یہی ہے اور اس پسماندگی کا براہ راست فائدہ پاکستان کو پہنچ رہا ہے جو کشمیریوں کو ڈرا دھمکا کر یا پھر ان کی وفاداریاں خرید کر، دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو وادی میں اتار دیتا ہے۔ یوں آئین کا آرٹیکل 370 کشمیر میں دہشت گردی کے فروغ میں بھی معاون ثابت بھی ہو رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی ایک سے زائد بار وارننگ دے چکی ہیں اگر اس آرٹیکل کو ختم کیا گیا تو کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس کے باوجود بھارت میں اس آرٹیکل کو ختم کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی بحث شروع ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک منتخب ریاستی حکومت اسمبلی میں اکثریت سے اس کے خاتمے کی تجویز منظور نہیں کرتی، اسے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ انتظام صرف صدر جمہوریہ کے ذریعہ جاری ایک حکم پر کیا گیا تھا، لہٰذا اسے ہٹانے کے لئے بھی ریاستی حکومت کے مشورے کے نتیجے میں آنے والا صدارتی حکم ہی کافی ہو گا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک تھنک ٹینک نے بھارتی سپریم کورٹ میں بھی اس معاملے کو چیلنج کر رکھا ہے جس کا فیصلہ پیر کو متوقع ہے۔

اس آرٹیکل کے خاتمے سے نہ صرف کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم ہو جائے گی بلکہ اقوام متحدہ کی جموں کشمیر کے حوالے سے قرار دادیں بھی بے معنی ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ سرمایا کاری کے نام پر کشمیر کی آبادی اقلیت میں بدل کر مستقبل میں بھارت سرکار کے لیے کسی پریشانی کا امکان بالکل ختم کر لیا جائے گا۔ اس موقع پر پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش سے مطمئن و شاداں ہو کر گہری نیند نہ سوئے۔ بلکہ آنکھ اور کان کے ساتھ زبان بھی کھلی رکھے اور دنیا کو بتائے کہ بھارت کشمیر اور کشمیری عوام کے ساتھ کیا کرنے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).