اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا سیکھیں


چند روز قبل لاہور کے ایک معروف ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔ کھانے کے بعد جب بل آیا تو کاپی میں کریڈٹ کارڈ رکھ دیا۔ ویٹر نے کہا ”سر کارڈ سے ادائیگی کریں گے تو بل زیادہ بنے گا، میں دوبارہ بنوا کر لاتا ہوں۔“ میں نے پوچھا وجہ؟ بتایا گیا کہ اگر آپ کارڈ سے ادائیگی کریں گے تو بل اور پکی رسید کمپیوٹر سے نکلے گی اور اس میں سیلز ٹیکس بھی شامل ہو گا۔ اگر نقد ادائیگی کریں گے تو ہاتھ سے بنا ہوا بل آپ کے سامنے ہے۔ تقریباً پانچ سو روپے کا فرق بنتا ہے۔ باقی آپ کی مرضی۔ میں نے کہا پکی رسید کا میں نے اچار ڈالنا ہے، دینی ہے دو، نہیں دینی تو بھی پروا نہیں۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

کل سے ہر اخبار میں، ہر چینل پر ایک ہی خبر گرم ہے، سینٹ میں حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی۔ ہر طرف شور مچا ہے، دھمکی چلی ہے، پیسہ چلا ہے، سینیٹرز بک گئے ہیں، جمہوریت کو یہ ہو گیا ہے، وہ ہو گیا ہے، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔

سینیٹرز بکے یا نہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آخر ہم صرف سیاستدانوں کو ہی بدعنوان کیوں سمجھتے ہیں؟ یا شاید زیادہ بہتر سوال یہ ہے کہ آخر ہماری نظر میں بدعنوان صرف دوسرے کیوں ہوتے ہیں، میں یا آپ خود یا ہمارے قریبی لوگ کیوں نہیں؟

سرخ مرچوں میں اینٹیں اور دودھ میں ہڈیوں کا چورا ڈالنے والے سینیٹرز ہیں یا عام شہری؟ جو مستری ایک/چار کا وعدہ کر کے ایک/چھ کا مسالہ لگاتا ہے، وہ؟ جو پارکنگ سٹینڈ والا پرچی دیتے ہوئے گاڑی کا نمبر نہیں لکھتا اور پھر وہی پرچی اگلی گاڑی کو بھی دیتا ہے، وہ؟ جب کسی معروف برانڈ کے کپڑوں کا نیا ڈیزائن آتا ہے اور چند دن بعد اس کی نقل کھلم کھلا بازار میں بکتی ہے، تو اس دکاندار کو ہم چور کیوں نہیں کہتے؟ یا اس خریدار کو جو جانتے بوجھتے اس چوری شدہ نقل کو خریدتا ہے، بلکہ خاص وہی مانگتا ہے کہ یہی لینی ہے کیونکہ سستی ہے؟

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کسی سے پوچھ لیں پاکستان سٹیل ملز کیوں تباہ ہوئی؟ پی آئی اے کا بیڑہ کیسے غرق ہوا؟ جواب ملے گا کہ سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہزاروں بھرتیاں بڑے بڑے سرکاری اداروں کو لے بیٹھیں۔ فلاں ذمہ دار ہے، اندر کر دو۔ فلاں ذمہ دار ہے، الٹا لٹکا دو۔ لیکن کوئی یہ بھی تو بتائے کہ وہ جو ہزاروں بھرتی ہوئے تھے، وہ کون تھے؟ کیا وہ مجھ جیسے، آپ جیسے، عام شہری نہیں تھے؟ مان لیا کہ بھرتی کروانے والوں نے پیسے لئے، وہ بدعنوان ہیں، انہیں گالیاں دینا بھی جائز اور ان کا احتساب بھی لازم۔ لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھرتی ہونے والوں نے بھی پیسے دیے تھے، اور یقیناً اس سے زیادہ آمدن کی توقع میں ہی دیے ہوں گے، پھر ہم انہیں بھی وہی گالیاں کیوں نہیں دیتے؟ ان کا احتساب بھی اسی پیمانے پر کیوں نہیں کرتے؟

شاید اس لئے کہ وہ تو میں اور آپ خود اور ہمیں اپنے اردگرد نظر آنے والے عام لوگ ہیں۔ وہ کیسے بدعنوان ہو سکتے ہیں؟ بدعنوان تو صرف سیاستدان ہوتے ہیں نا!

تالی دو ہاتھوں سے بجا کرتی ہے۔ رشوت لینے کے لئے رشوت دینے والا بھی ضروری ہے۔

اور ہم بظاہر پڑھے لکھے لوگ کون سا دودھ کے دھلے ہیں! جو ڈاکٹر ہسپتال میں مریض سے ایک طرح پیش آتا ہے اور اپنے کلینک پر کسی اور طرح، کیا وہ بدعنوان نہیں؟ اور جو ”گفٹ“ وہ میڈیکل ریپس سے لیتا ہے، کیا وہ رشوت نہیں؟ کون سی یونیورسٹی ہے جہاں اساتذہ اور دیگر ملازمین کے بچوں کے لئے اوپن میرٹ سے الگ نشستیں مختص نہیں؟ کیا یہ صرف اپنی محنت سے میرٹ پر آنے والوں کے حق پر ڈاکہ نہیں؟ یا پھر جب ہم اپنے تحقیقی مقالے میں اپنے دوست کا نام صرف اس لئے ڈالتے ہیں تاکہ وہ بھی اپنے مقالے میں ہمیں یاد رکھے۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی!

بدعنوانی کیا صرف پیسے کی ہوتی ہے؟ سگنل پر جو سرخ بتی ہے، کیا میں اور آپ اس کا احترام کرتے ہیں؟ اگر پولیس والا نہ کھڑا ہو، پھر بھی کرتے ہیں؟ اگر کیمرہ نہ لگا ہو، پھر بھی کرتے ہیں؟

سچ یہ ہے کہ قانون اور انصاف کی پروا نہ مجھے ہے نہ آپ کو۔ ہم میں سے جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا داؤ لگاتا ہے۔ دوسروں کی بدعنوانی پر تنقید کر کے دراصل ہم صرف اپنے حسد کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا داؤ اتنا بڑا اور ہمارا اتنا چھوٹا!

ہم سب عادتاً نہیں مجبوراً شریف لوگ ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا سیکھیں، امید ہے افاقہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).