بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے


میر حاصل بزنجو کی سعی کیا سعی لا حاصل ہی رہے گی یا ہماری سیاست، صحافت اور عدالت و دوسرے ادارے طاقتوروں کے زبردست اثر سے باہر نکلنا شروع ہو جائیں گے؟ انہیں بھی اس جرات رندانہ اور نعرہ مستانہ پر نواز شریف، مریم نواز، جسٹس قاضی فائز عیسٰی، محسن داوڑ، علی وزیر، جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس کے کے آغا اور رانا ثنا اللہ کی طرح نشانِ عبرت بنانے کی بھونڈی کوشش کی جائے گی یا ان سے کچھ رعایت برتی جائے گی؟ باغیوں اور گستاخوں کی فہرست کچھ طویل نہیں ہو تی جا رہی؟

بات دستورِ زباں بندی سے ہوتی ہوئی، دھیرے دھیرے بول کوئی سن نہ لے تک پہنچی۔ کچھ عرصہ جبر و قہر کے اندھیروں میں یہیں دبکی سہمی بیٹھی رہی، پھر خاطر جمع کر کے دو چار لمبے ڈگ بھرے اور صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی قابلِ ستائش منزل پر آ کر رکی رہی۔ معاً کہیں سے صدائے وقت بلند ہوئی کہ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ اس باغیانہ آواز کی لے پر بات یہاں تک آ ئی کہ سرک رہا ہے نقاب آہستہ آہستہ۔ مگر گذشتہ الیکشن میں تو یہ نقاب آہستہ آہستہ کے بجائے یکبارگی سرک گیا اور صرف چہرہ ہی نہیں سارا تن بھی برہنہ ہو تا گیا۔ میر حاصل بزنجو نے بات اس سے بھی آگے بڑھا دی اور اب تو حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ

بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

بزنجو صاحب کے کھڑاک پر مقتدرہ کے ترجمانِ شیریں بیاں نے جواب آں غزل کے طور پر ٹویٹ کر کے ملک کے پریمئیر ادارے پر معمولی سیاسی فائدے کے لیے کیچڑ اچھالنے اور جمہوریت اور جمہوری اقدار کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے جواب میں بشریٰ گوہر نے حسب سابق ترجمان خوش بیان کی طبیعت صاف کی اور منہ توڑ جواب دیا کہ ڈی جی صاحب اپنے کام سے کام رکھیں معزز سیاستدانوں کو جمہوریت کا درس نہ دیں۔

اب موجودہ لے پالک، بیساکھیوں اور ایک پیج والی حکومت، مقتدرہ کی اس طرح خبر لیے جانے پر پیچ و تاب کھا رہی ہے اور بزنجو صاحب کو اس ’غداری‘ پر قرار واقعی سزا دینا چاہتی ہے۔ گوجرانوالہ کی ایک عدالت میں ایک محب وطن وکیل نے بزنجو صاحب کے اس بیان کے خلاف کیس بھی کردیا ہے اور وفادار جج صاحب نے بزنجو صاحب کو آٹھ اگست کو طلب بھی کر لیا ہے۔ مجال ہے مقتدرہ یا حکومت کا کوئی افلاطون اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار ہو کہ مقتدرہ کو خود اس کے طرز عمل نے یہ دن دکھلائے ہیں۔

جس ادارے کو تمام شہریوں نے جگر کا خون دے دے کر عظمت کے آسمان پر بٹھایا ہو، جس کی سر بلندی کی داستانیں پاکستان کے ہر گھر کے مرد مجاہد کے خون کی سرخی سے لکھی جاتی ہوں، جس کی بے باکی اور پیشہ ورانہ مہارت پر ملک کا ہر پیر و جواں رشک کرتا ہو، جس کی خاکی وردی کے تقدس کی قسمیں ہر شہری کھاتا ہو، جس کی جاں بازی اور سرفروشی کی گواہی بد ترین دشمن بھی دے رہا ہو اور جس کی حرمت و پاک دامانی پر ہر دل فرحاں و شاداں ہو اس کے کچھ سپوت اگر ببانگ دہل ملک کی ایک سیاسی پارٹی کو خم ٹھونک کر ہر جائز ناجائز طریقے سے اقتدار میں لا کر اس کی حب الوطنی اور صداقت و امانت کے گن گانے لگیں تو بائیس کروڑ اہل وطن اور ساری دنیا اس پر انگلی تو اٹھائے گی۔

جب ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کے جیتنے والے امیدواروں کو جعلی اور جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر پابند سلاسل کر کے الیکشن کا ڈھونگ رچا کر منظور نظر لوگوں کو تخت پر بٹھایا جائے گا تو سوال تو اٹھیں گے۔ جب حکومت کا سربراہ اور وزرا ہر فورم پر قومی ادارے کا اپنی پشت پر کھڑے ہونے کی دھمکی دے کر اپوزیشن پر یلغار کریں گے تو بزنجو صاحب جیسے جرات مند لوگ زبان حال اور زبان سے اس کھلی غنڈہ گردی پر صدائے احتجاج تو بلند کریں گے۔

بے شک دارو رسن کے بے مہر اور قہر آلود موسم کا چلن عام کر دیجیے۔ زبان پر تالے، کانوں میں سیسہ اور آنکھوں پر خوف و لالچ کی پٹی باندھ دیجیے، سچائی کو ہزار پردوں میں چھپا کر رکھنے کا بندوبست کر لیجیے مگر لوگ نہ اندھے ہیں نہ نابینا نہ بہرے نہ گونگے، وہ سب کچھ دیکھ بھی رہے ہیں، سن بھی رہے ہیں، محسوس بھی کر رہے ہیں اور اس کھلی جعلسازی، مکر و فریب اور ظلم و جبر کے خلاف بول بھی رہے ہیں۔ اگریہ بات چل نکلی ہے تو اتنی دور تک جائے گی کہ جہاں آپ کا گمان بھی نہیں پہنچ سکتا۔ قومی اداروں کو قومی ہی رہنے دیں انہیں کسی منظور نظر سیاسی پارٹی کا ونگ نہ بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).