افغانی: اب وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو جاں نکلے


\"farnood\"

مفلسی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے پاس کھیلنے کو کوئی مہرہ بھی نہیں بچا۔ جو بھی چال چلتے ہیں استاد ابراہیم ذوق کی طرح نہایت بری چلتے ہیں۔ اس بات کا ہمیں احساس ہوچکا کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی کابینہ اور افغان عوام میں ہم اپنا احترام کھوچکے۔ صرف طالبان کا ہی کندھا ہے جس پر سر رکھ کر رویا جاسکتا ہے یا بندوق رکھ کرچلائی جا سکتی ہے، مشکل مگر یہ ہے کہ اب طالبان بھی استخارہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کی دفاعی قیادت پر بھروسہ کیا بھی جائے تو کس بنیاد پہ کیا جائے۔ جنرل راحیل شریف صاحب نے چھ ستمبر کے خطاب میں ایک جملہ ارزاں کیا، ملاحظہ ہو

’’سب کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ افغانستان ہمارا مسلم برادر ملک ہے‘‘۔

جملے کی ترکیب سے واضح ہے کہ ہم اب بھی نظم اجتماعی اور سفارتی تعلقات کی بنیاد مذہب کو سمجھتے ہیں۔ دنیا ایک زیر زمین عظیم انفجار یعنی Big Bang کا تجربہ کرنے جارہی ہے اور ہم اتنی سی بات سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ معاشرے روٹی کے رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں اور یہ کہ بین الممالک تعلقات کی بنیاد قومی مفادات ہوتے ہیں۔ اگر یہ دعوی غلط ہے تو تین سوالات سامنے رکھے دیتے ہیں۔

۱۔ اگر پڑوسیوں سے تعلق کی استواری میں کلیدی کردار مذہب کا ہے تو کابل کا نان بائی پاکستان کے بجائے ہندوستان کو مرحبا کیوں کہہ رہا ہے ؟

۱۔ اسی طرح تمام تر مسلکی اختلافات اور سیاسی تفاوت کے باوجود طالبان شوری کے لوگ خود کو زاہدان مشہد اور تہران میں زیادہ محفوظ کیوں محسوس کر رہے ہیں ؟

۳۔ خطے میں ہمارے دیرینہ مراسم صرف چائنا کے ساتھ ہی کیوں ہیں؟ کہیں اس لیے تو نہیں کہ چائنا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد مذہب نہیں ہے ؟

ان سوالات کے جوابات ادھار ہیں، مگر جواب ڈھونڈتے دم اس نکتے پہ ذرا غور کیجیے گا کہ جن ممالک کے ساتھ ہماری الہامی سفارت کاری ہے وہاں حالات کس قدر کشیدہ ہیں، اور جہاں مادی سفارت کاری ہے وہاں دوستی ہمالیہ سے بھی کس قدر اونچی ہے۔ سردست ہم اس پر کچھ بھی عرض نہیں کرتے۔ خطے میں اپنی بے کسی کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ وائے نصیب اب ہمارے پاس مہرے بھی نہ رہے۔ افغانستان میں ہمارے پاس اب صرف طالبان بچے ہیں مگران سے بھی مالکان کا رشتہ اب کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ یہ کبھی بھی ٹوٹ سکتا ہے تڑق کر کے۔ پیچھے رہ گیا ایک پتہ۔ افغان مہاجرین کا پتہ۔ کتنی بری چال تھی جو ہم چلے۔ ہم نے افغان مہاجرین کو بیک جنبشِ لاٹھی افغانستان کی طرف ہانک کر کابل کو ایک پیغام دینا چاہا کہ راہ راست پر آجاؤ ورنہ ہم پچیس لاکھ مہاجر واپس بھیج رہے ہیں۔ ان پچیس لاکھ مہاجروں کو سنبھالنا تو آپ کے لیے مسئلہ ہوگا ہی لیکن یہ بھی خیال رکھیں کہ بے روزگاری کے سبب یہ مہاجرین طالبان کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ لاکھوں میں نہ سہی، چند ہزار ہی طالبان کے ساتھ شامل ہوجائیں تو اینٹ سے اینٹ بجانے کو کافی ہیں۔

اس پتے نے اول اول کابل کے اوسان خطا تو کیئے، مگر فورا ہی سنبھل گئے۔ اول کابل نے ہم سے دسمبر تک کی مہلت مانگی۔ ہم نے آنکھیں ماتھے پہ رکھ کر کہا، دسمبر کی بات کرتے ہو ہم تو اگست تک کی بھی مہلت نہ دیں۔ کابل کے نمائندے اسلام آباد آئے، دوبدو گفتگو میں بھی آپ نے ٹکا سا جواب دیا کہ، مہلت کی توقع ہم سے نہ کی جائے ہمارا فیصلہ حتمی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ صرف دو ہفتے بعد ہم نے کہا، آغا ! ایںجا بیا یک گپ می زنم، چرا دل گرفتہ شدی برادر؟ تو برادرِ ما ہستی، من تابعدارہستم آغا، آپ دسمبر تک مہلت مانگ رہے تھے آغا، ہم تو آپ کو اگلے برس کی اگست تک مہلت دینے کو تیار ہیں۔ یہ کایہ پلٹ کیسے ہوئی کہ جنہیں ہم رواں برس کی اگست تک کی مہلت نہیں دے رہے تھے انہیں آئندہ برس کی اگست تک کی صلح مارنے لگے؟ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہم یہ سمجھے تھے کہ چونکہ افغانستان لوٹنے کے بعد ان مہاجرین کی حیثیت ماہجرین کی نہیں رہے گی تو عالمی ادارے اس مد میں کوئی تعاون نہیں کریں گے۔ معاملہ برعکس ہی ہونا تھا اور برعکس ہی ہوا۔ اشرف غنی نے عالمی راہداریوں میں اپنی چال چلی اور اس چال میں کوئی مشکل پیش آنے کا کوئی امکان بھی نہ تھا۔ اشرف غنی کو یقین دلادیا گیا کہ فکر نہ کیجیے مہاجرین کو آنے دیجیے، مل کر سنبھالیں گے۔ یقین دہانیوں کے بعد اشرف غنی نے بانہیں پھیلاکر افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہا۔ اب خوش آمدید کہا تو ہمیں فورا احساس ہوا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے فیصلے کے نتیجے میں ایک طرف ہم نے پچیس لاکھ متنفر دل پیدا کر دیے دوسری طرف اس امداد سے بھی گئے جو مہاجرین کی مد میں ہم وصولا کرتے تھے۔ اب اپنی جھینپ مٹانے کے واسطے جن غریب افغانیوں کو ہم واپس بھیج رہے ہیں دراصل نفرت کی اس آگ کے لیے تیل بھیج رہے ہیں جو کابل میں میں پاکستان کے پرچم کو نذر آتش کررہی ہے۔ یعنی اب وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو جاں نکلے۔

اسلحہ بیچنے اور خریدنے والوں کی مجبوریاں اور ہوسکتی ہیں، مگر گندم کی تلاش میں سرگرداں انسان کا مسئلہ اور ہے۔ ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیے تو قوم پر دفاع پاکستان کونسل چھوڑ دی جاتی ہے۔ ایران کے صدر سے ہاتھ ملائیے تو اس کے چغے سے کلبھوشن یادیو برامد کرلیا جاتا ہے۔ اس تذلیل کا حاصل کیا ہوا؟ ہم نے ایران کا ناطقہ بند کیا لازمی نتیجے کے طور پر وہ ہندوستان چلا گیا۔ ہم نے افغانستان کے چلغوزے ہندوستان پہنچنے نہیں دیے تو افغانستان نے مشرق وسطی کے راستے بند کر دیے۔ ایسے میں اگر پاک چائنا کاریڈور کا کوئی اچار بنا بھی لیں تو بیچیں گے کہاں ؟ کیا ہم ایک تنگ وتاریک گلی میں اربوں ڈالر جھونکنے جارہے ہیں؟ ہم تاریک اندھیرے میں کسی ہاتھی کے امکان پر ہلکان ہوئے جارہے ہیں اور پڑوسیوں نے زمین کی کھدائی بھی شروع کردی ہے۔ کیا خطے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

ہمیں اب ملک کا سوچنا ہے۔ ملک ہے تو اداروں کا بھرم ہے۔ ایسے اداروں کا احترام ہو نہیں پائے گا جو ملک سے الگ کھڑے ہوکرسوچ رہے ہیں۔ زندگیاں داؤ پر لگی ہیں۔ ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ سوچنا پڑے گا کہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ تعلق کی بنیاد قومی مفاد کو بنانا ہے یا پھر کچھ ایسے نفرت انگیز بیانیے کو کہ جس کے سبب تاریک رات پھیلتی جارہی ہے ؟ سب سے اہم سوال یہ سامنے رکھنا ہے کہ دشمنی استوار کر ہم نے کیا حاصل کرلیا ؟ اگر کچھ حاصل ہوا ہے تو جان وتن فدا۔ اگر نقصان ہی اٹھایا ہے تو دور سے سلام۔ اب بہت ہوچکا۔ اب دنیا کو یقین دلانا ہی پڑے گا کہ اسلام آباد لاہور کراچی بہاولپور مظفر آباد کوئٹہ اور چمن میں کرائے کے قاتلوں کی انڈسٹریاں ہماری سرکردگی میں نہیں چل رہیں۔ یہی گانٹھ لگی ہوئی ہے، کھول دیجیے۔ دانتوں سے ہی کھلے گی، مگر کھولیے تو سہی۔ وقت ریت کی طرح مٹھی سے نکلا جارہا ہے۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments