انڈین الزامات پروپیگینڈا کے سوا کچھ نہیں: ڈی جی آئی سی پی آر میجر جنرل آصف غفور


پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لائن آف کنٹرول کے پاس اس کے زیرِ انتظام علاقے میں کارروائی کرنے کے الزامات پروپیگینڈا کے سوا کچھ نہیں۔

فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے سنیچر کی شب ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لائن آف کنٹرول کے پار کارروائی اور لاشیں قبضے میں لینے کے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے ڈراموں سے انڈیا دنیا کی توجہ اپنے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں انڈین فوج کی جانب سے کیے جانے والے مظالم میں اضافے سے ہٹانا چاہتا ہے۔اس سے قبل انڈین فوج کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ گذشتہ ہفتے کے دوران لائن آف کنٹرول کے علاقے میں پاکستانی جانب سے دراندازی کی کوششوں میں تیزی آئی ہے اوران کوششوں میں مبینہ طور پر بارڈر ایکشن فورس بھی شامل تھی۔

انڈین فوج کے مطابق گذشتہ 36 گھنٹوں کے دوران پاکستان کی جانب سے وادی کا امن خراب کرنے اور امرناتھ یاترا کو نشانہ بنانے کے لیے کئی کوششیں کی گئی۔ انڈین فورس نے ان کوششوں کا پیشہ ورانہ انداز میں مناسب جواب دیا اور پاکستانی فوج اور دہشت گردوں کی سازباز کو ناکام بنایا۔فوج نے الزام لگایا ہے کہ کیرن سیکٹر میں ایک فارورڈ پوسٹ پر بارڈر ایکشن فورس نے حملے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا اور پانچ سے سات حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

انڈین میڈیا میں فوج کے حوالے سے کچھ ایسی تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جن میں ان مبینہ حملہ آوروں کی لاشوں کو دکھایا گیا ہے۔انڈیا کی جانب سے پاکستان پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اس نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کی بجائے انڈین فوج کی جانب سے کلسٹر بموں کے استعمال کے بارے میں مذموم مہم شروع کر دی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لائن آف کنٹرول کے پار بارڈر ایکشن ٹیم کے استعمال کا الزام لگایا گیا ہو۔ مئی 2017 میں بھی انڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فوج کی بارڈر ایکشن ٹیم نے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں گشت کرنے والی فوجی پارٹی پر حملہ کر کے دو فوجیوں کو ہلاک اور ان کی لاشیں مسخ کر دی ہیں۔تاہم پاکستانی فوج نے ان دعووں کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ایل او سی کے پار کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

عسکری حکام نے بی بی سی اردو کو یہ بھی بتایا تھا کہ پاکستانی فوج میں کسی بارڈر ایکشن ٹیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ادھر پاکستانی حکومت نے بھی انڈیا پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ اس کی فوج نے حالیہ چند ہفتوں میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی متعدد خلاف ورزیاں بھی کی ہیں اور انڈین فائرنگ سے 19 جولائی سے تین اگست کے درمیان پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں چھ شہری ہلاک اور 48 زخمی ہو چکے ہیں۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے سنیچر کی شب جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈین فوج نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں شہریوں پر گولہ باری میں کلسٹربموں کا استعمال بھی کیا ہے عالمی حقوِقِ انسانی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔بیان میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تیزی سے خراب ہوتی صورتحال پربھی شدید تشویش ظاہر کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ انڈین حکام کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں 38 ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے وہاں کے عوام کی پریشانی اور خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مزید فوجیوں کی تعیناتی کے لیے خودساختہ ‘خفیہ اطلاعات’ اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردی کی فوری کارروائی کے خطرے جیسی جو وجوہات تراشی جا رہی ہیں، وہ انھیں مسترد کرتا ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ اس طرح کی ‘دھوکہ بازی’ انڈیا کا جانا پہچانا طریقہ ہے۔دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق وادی میں آنے والے سیاحوں، یاتریوں اور طلبا کو فوری طور پر وادی چھوڑنے کا حکم دیے جانے سے بھی خدشات بڑھے ہیں اور یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ انڈیا ممکنہ طور پر اپنے زیرِ انتظام کشمیر کا آبادیاتی ڈھانچہ بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ماضی میں بھی اور اب بھی پاکستان کسی بھی ایسے قدم کا مخالف ہے جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کا آبادیاتی ڈھانچہ یا جموں اور کشمیر کی عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت تبدیل کرے کیونکہ اس سے خطے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp