گلگت میں ایک اور ننھی زینب اور اس کے والد کی خودکشی


گزشتہ سال 9 جنوری کو قصور کی کچرا منڈی سے ایک نعش برآمد ہوئی تھی۔ ابتدائی طور پر معصوم نعش لاوارث تھی تاہم تحقیقات کے بعد معلوم ہوگیا کہ یہ معصوم فرشتہ صفت بچی زینب ہے جو قصور سے تعلق رکھتی ہے اور اسے درندوں نے اپنی وحشت اور درندگی کا نشانہ بنایا ہے۔ تحقیقات اور قانونی ضابطے پورے کرنے کے بعد 17 اکتوبر کو 56 گواہوں اور 36 شہادتوں کی بنیاد پر ملزم کو پھانسی دیدی گئی۔ اس بنیاد پر اس کیس کے ٹرائل کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹرائل بھی کہا گیا۔

رواں ہفتے کے شروع میں گلگت شہر کے علاقے سکارکوئی میں بھی ایک اغواء اور بعد ازاں جنسی زیادتی کا کیس رپورٹ ہوا۔ زیادتی کے اس واقعے کی متاثرہ بچی کا نام بھی زینب ہے اور انتہائی مماثلت کے ساتھ گلگت کی زینب بھی نوعمر ہی ہے۔ معاشرے کا انتہائی افسوسناک پہلو اس وقت سامنے آگیا جب لڑکی کے والد نے دریا گلگت میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا۔

سوشل میڈیا میں یہ کیس بہت زیادہ ہائی لائیٹ ہوگیا جس کے مثبت اور منفی اثرات دونوں موجود ہیں تاہم اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی صدارت میں منعقد ہونے والے 17 ویں کابینہ اجلاس میں اس کیس کی مذمت کی گئی اور متعلقہ تھانے (کون سا ہے معلوم نہیں) کے عملے کو معطل کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔ دوسری جانب چیف کورٹ گلگت بلتستان نے بھی اس معاملے پر از خود نوٹس لیا اور تمام فریقین کو طلب کرلیا ہے۔

اس واقعہ کا منفی پہلو ہمیشہ کی طرح یہی ہے کہ جذباتیت کی بنیاد پر مشرق سے مغرب تک ایک تیارشدہ پیغام چلتا رہا ہے جس میں اخلاقیات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ ابتدائی معلومات سوشل میڈیا میں ہمیشہ ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں تاہم متعدد دیگر واقعات کے تجربے کی روشنی میں یہ خدشہ موجود ہے کہ معلومات آدھی ہوں گی ۔ جس سے ملزمان فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں ممکن ہے کہ ایک ملزم کو مفرور ہونے میں اس نے مدد کی ہو۔ بہرحال مثبت اثرات واضح ہیں جبکہ منفی اثرات صرف محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

ایک معتبر اور مصدقہ ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ اغواء کے دوروز بعد نجیب اللہ نے خواتین تھانہ میں درخواست دیدی تھی کہ میری بیٹی کے ساتھ درندگی کا واقعہ پیش آیا ہے لہٰذا قانونی کارروائی کی جائے۔ خواتین ویمن سٹیشن کے اہلکاروں نے دوپہر کو پہنچنے والے نجیب اللہ کو رات گئے تک ٹرخائے رکھا۔ ویمن سٹیشن نے اسی روز کئی بار بچی کو بھی تھانہ طلب کیا اور مزید ذہنی اذیت دیتے ہوئے متعدد سوالات کیے کیونکہ قانون تو اندھا ہوتا ہے۔

کئی بار نجیب اللہ اپنی بیٹی کو لے کر تھانہ گیا اور کئی بار دوبارہ چھوڑنے کے لئے گھر آگیا، ذہنی کوفت اور اذیت میں مبتلا اس خاندان کی اذیت میں خواتین تھانہ والوں نے بھرپور اضافہ کیا۔ شام گئے بعض سماجی حلقوں نے تھانہ تک رسائی حاصل کرلی اور ایس ایچ او سمیت عملہ سے درخواست بھی کی کہ آپ نے جوکارروائی کرنا ہے وہ کریں اس متاثرہ خاندان کو مزید اذیت میں مبتلا نہ کریں، جس پر پولیس کا جواب تھا کہ جوہونا تھا وہ ہوچکا ہے اس سے آگے کا کام ہمارا ہے لہٰذا آپ یہاں سے چلے جائیں بہت شکریہ۔

اس واقعہ پر پولیس کا موقف لینے کے لئے ویمن تھانے کی ایس ایچ او انسپکٹر مریم سے ٹیلی فونک رابطہ کیا گیا۔ اخبار کا نام سننے کے بعد ہی اس انسپکٹر مریم نے کہا کہ ’میں ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہوں، آپ تھوڑی دیر بعد کال کریں۔‘ میں نے کہا کہ کچھ معلومات درکار ہیں آپ کسی متبادل کا نام بتائیں تاکہ رابطہ کیا جاسکے، جس پر انسپکٹر مریم نے ایک روایتی جملہ استعمال کیا اور کہا کہ ’آپ کی آواز نہیں آرہی ہے۔‘

ظلم ظلم ہوتا ہے۔ ظلم کی جڑ کو کاٹ کر نہ پھینکنے تک ایک کیس ٹرائل سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ گلگت بلتستان میں گزشتہ کچھ سالوں سے درندگی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بعض طبلہ نوازوں کی خواہش ہے کہ یہاں سے کوئی بری اور گندی چیز باہر نہ نکالی جائے اور گھر کے اندر ہی چھپائی رکھی جائے۔ حال ہی میں اشکومن میں ایک درندگی کا واقعہ پیش آگیا جس کے خون کے قطرے ابھی تک خشک نہیں ہوئے تھے کہ گلگت کی یہ معصوم بچی ظلم، بربریت اور درندگی کا شکار ہوگئی۔ گوکہ تحقیقات نے کوئی کروٹ نہیں لیا ہے لیکن معاشرے کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ امام صاحبان کو کبھی بھی معاشرتی برائیوں پر بولنے کی نوبت نہیں آئی ہے۔

سیاسی سطح پر یا تو سارے نابالغ بچے ہیں یا ایک خودساختہ احساس کمتری میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حکمران اپنے مفادات سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ معاشرتی اداروں کی تشکیل کے لئے یہاں کوئی تیار نہیں ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کی تعداد 12 سو سے زائد ہے۔ سکولوں میں صرف نصاب کو مکمل کرایا جاتا ہے۔ علامات بہت زیادہ ہیں جو معاشرتی پسماندگی کو ظاہر کریں۔ لیکن اسباب کی تلاش اور روک تھام کے لئے کام کرنے والے سرے سے موجود نہیں ہیں۔ صرف زبانی مذمت سے ہم اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار نہیں کرسکتے ہیں۔ یا تو قانون ایسا عبرتناک ہو جس سے لوگ عبرت پکڑ لیں یا معاشرے میں ایسے اعلانیہ اقدار قائم ہوں جن سے خوف کھاجائیں۔

غیر سرکاری تنظیموں کی موجودگی کو عالمگیریت اور ترقی کی ایک علامت سمجھا جاتا تھا لیکن یہاں سب کچھ الٹا ہے۔ اب تک گلگت بلتستان میں 998 ایسی غیر سرکاری تنظیموں کا ریکارڈ حاصل کیا جاچکا ہے جن کے ذرائع آمدن مشکوک ہیں اور وہ ٹیرر فنانسنگ (دہشتگردوں کی معاونت) کے خدشے میں گھر گئے ہیں۔

قصور کی زینب اور گلگت کی زینب میں دو مماثلتیں ہیں۔ گلگت کی زینب کے دو مماثلتیں اسلام آباد کی فرشتہ سے بھی ملتی ہیں، اول تو یہی کہ دونوں کم عمر ہیں لیکن دوسری مماثلت یہ ہے کہ پولیس نے روایتی اور پروفیشنل غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مادیت کے اس تیز ترین دور میں معاشرتی اصلاح کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں ہے۔ گھروں سے لے کر اجتماعی سطح تک ہمارا کردار داغدار اور بدبودار بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).