’کشمیر کی نئی نسل پھولوں کی خوشبو میں نہیں پیپر سپرے کی بو میں پروان چڑھ رہی ہے‘


انڈیا نوجوان طالبہ

‘جس خوبصورت کشمیر کا ذکر میرے والدین کرتے ہیں، بدقسمتی سے وہ کشمیر میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔‘

کشمیر میں 25 برس سے جاری شورش نے نئی نسل کے ذہن و دماغ اور زندگیوں پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ گزرے ہوئے برسوں میں انھوں نے صرف پرتشدد حالات ہی دیکھے ہیں۔

اب ایک مرتبہ پھر وہ وادی کے بگڑتے حالات کے تناظر میں خوف، بے یقینی اور مایوسی کی فضا میں سانس لے رہی ہے۔

ایسی ہی ایک مثال ارینا نقیب کی ہے جن کا تعلق انڈیا کے زیر انتطام کشمیر سے ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فوجی مشقیں، حکم نامے، افواہیں: وادی میں خوف

کشمیر سے غیر کشمیریوں کا انخلا کیوں ہو رہا ہے؟

’کشمیر میں تشدد نے نوجوانوں کو نڈر کر دیا ہے‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: ’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ اپنا دل خوش کرنے کے لیے یہ سب مجھ سے کہتے ہیں یا شاید مجھے خوش کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ کبھی یہاں ایسا تھا جب سب خوش تھے، امن تھا (اور) سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ ہوا کرتی تھی۔ مجھے ایسا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔’

ارینا گریجویشن کی طالبہ ہیں اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ان کے والدین ملازمت پیشہ تھے اور اب ریٹائرڈ ہیں۔ وہ پڑھ لکھ کر نوکری کرنا چاہتی ہیں لیکن کشمیر کے حالات کے سبب انھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔

دنیا کے پُرامن مقامات کی نئی نسل کی طرح ارینا بھی مستقبل کی تمناؤں اور خوابوں میں جینا چاہتی ہیں لیکن ان کی دنیا کی حقیقت کچھ مختلف ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں جی رہی ہیں جو سہمی ہوئی ہے، جہاں تمنائیں بے یقینی میں محصور ہیں۔

ان حالات میں ارینا خود سے اور اپنے اردگرد لوگوں سے اکثر پوچھتی ہیں کہ کیا ان کی دنیا ایسی ہی رہے گی؟

انڈیا نوجوان طالبہ

’کہاں گئے وہ سینما گھر‘

کشمیر کے حالات اور نئی نسل کی زندگی پر ارینا کہتی ہیں کہ میں نے وادی کے خوبصورت پھولوں کی خوشبو میں نہیں بلکہ پیپر سپرے میں سانس لی ہے۔

‘میں وہ لڑکی ہوں جو دن رات محاصرے میں ڈر اور سہم جاتی تھی۔ جو گولیوں میں رو پڑتی تھی۔ میں نے وہ کشمیر دیکھا ہی نہیں جس کا ذکر میرے والدین کرتے ہیں۔’

ارینا کہتی ہیں کہ ان کے والدین سری نگر کے سینما گھروں کا ذکر کرتے ہیں، اور وہ ان سے پوچھتی ہیں ’کہاں گئے وہ سینما گھر؟‘

انڈیا نوجوان طالبہ

وہ کلاسز کے لیے کالج جاتی ہیں تو انھیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی کلاس کے باقی طلبہ موجود ہوں گے یا نہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ کبھی کوئی گرفتار ہوگیا، کوئی پیلٹ گن کے فائر کا نشانہ بن گیا تو کوئی گولیوں سے زخمی ہوگیا۔

‘جب میں امتحانات دے کر نکلتی ہوں تو میرے والدین پہلے یہ نہیں پوچھتے کہ پیپر کیسا ہوا۔ وہ پوچھتے ہیں حالات کیسے ہیں۔ باہر جاتے وقت وہ کہتے ہیں کہ وہاں خالہ کا گھر ہے، حالات بگڑیں تو وہیں رک جانا۔ یہاں گھر سے نکلتے وقت لوگ موسم نہیں، حالات کے بارے میں پتہ کرتے ہیں۔’

ارینا کہتی ہیں کہ ان کے والدین بتایا کرتے تھے کہ پہلے جب کشمیر میں بادام واری میں پھول کھلتے تھے تو پورے سرینگر میں ان کی خوشبو آتی تھی۔ ‘(لیکن یہ خوشبو) مجھے نہیں آتی۔ مجھے پیپر سپرے، آنسو گیس دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، بس یہی دیکھا ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین اکثر بتاتے ہیں کہ پہلے بہت مہمان آیا کرتے تھے اور سب ہنسی خوشی ایک ساتھ درگاہ جایا کرتے تھے۔ اب جب کوئی مہمان آتا ہے تو اس سے پہلے پوچھا جاتا ہے ‘شناختی کارڈ ہے؟’

’ہر کشمیری رو پڑتا ہے‘

جب نوجوان طالبہ سے پوچھا گیا کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتی ہیں تو ان کا کہنا تھا: ‘میں قید ہو گئی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا مستقبل کیا ہے۔

انڈیا نوجوان طالبہ

’مجھے لگتا ہے میرے پر کٹ چکے ہیں، میں نیچے گر گئی ہوں۔ میں اٹھنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھے یہاں کے حالات اٹھنے نہیں دے رہے۔ ہماری نسل کے دوسرے لوگ اس لیے جیتے ہیں کہ ان کی زندگی کا ایک مقصد ہے۔ ہم لوگ اس لیے جی رہے ہیں کہ ہمیں جینا ہے۔’

ارینا کہتی ہیں ‘یہاں اب کوئی نہیں ہنستا۔ ہر گھر میں سب کے دلوں میں ایک اُداسی ہے، سب رونا چاہتے ہیں۔ اگر چھوٹی سی بھی وجہ مل جائے تو ہر کشمیری رو پڑتا ہے۔ سب رونا چاہتے ہیں۔’

وہ کہتی ہیں اب میرے والدین اپنی یادوں کے کشمیر کا بھی ذکر نہیں کرتے۔

‘میرے گھر والے اب چپ ہو گئے ہیں کہ شاید ان کو بھی یہ پتہ ہے یہ اب (کشمیر) کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ ایسے ہی چلنے والا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ٹھیک ہو گا ۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp