اب مسئلہ کشمیر نہیں رہے گا


لگتا ہے کشمیر کے دیرپا حل پر اتفاق ہوگیا ہے۔ عجیب سا لگتا ہے۔ ہے نا! جب کشمیر میں انڈین فوج کی تعداد اور کریک ڈاون بڑھنے لگے ہیں۔ اور کوئی ایسی بات کرے۔ تو عجیب ہی لگے گا۔ تبدیلی سرکار نے تبدیلیاں لانے کا جو ایجنڈا بنایا تھا۔ اس پر عملدرآمد ابھینیندن کے حملے اور پھر واپسی سے شروع ہوا ہے۔ ابھینیندن کی واپسی سے مودی کو الیکشن میں تقریبا واک اوور مل گیا ہے۔ اور وہ اس پوزیشن میں واپس اگئے ہیں کہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں فیصلہ کن اقدامات اٹھا سکے اور ساتھ ساتھ اسے اندورن ملک زیادہ مخالفت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔

ابھینیندن کی واپسی اور سرحدپار حملے کے وقت وزیر اعظم عمران خان نے اور باتوں کے علاوہ دو باتیں کہی تھیں۔ جس پر حملے کی گہماگہمی میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ لیکن وہ دونوں باتیں دونوں ممالک اور کشمیریوں کی روشن مستقبل کے لئے بہت اہم تھیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ جنگ بڑھانے کی صورت میں دونوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، جنگ سے گریز کے لئے مودی کو اپیل کی تھی۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انڈین حملے کے وقت پاکستان سو نہیں رہا تھا، جاگ کر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اور جتنا کرنے کی اجازت ملی تھی اتنی اجازت تھی۔ جس سے جب سرتابی کی گئی نقصان پنچایا گیا۔

دوسری اہم بات جو وزیر اعظم صاحب نے کہی تھی وہ یہ تھہ کہ مودی اگر دوبارہ منتخب ہوجائے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہم اس کی کامیابی کے منتظر ہیں۔ اور عمران خان کی دعاؤں سے مودی کامیاب ہوگئے۔ عمران خان امریکہ تشریف لے جاتے ہیں۔ تو امریکی صدر ٹرمپ برملا اقرار کرتے ہیں۔ کہ مودی نے ان کو کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ جس سے بعد میں انڈیا نے قبل از وقت سیاسی مسائل بننے کی وجہ سے سرکاری طور پر انکار کردیا۔

کشمیر کا مسئلہ انڈیا اور پاکستان دونوں نے ایک حقیقی مسئلہ کی بجائے ایک جذباتی اور بڑھا چڑھا کر پیش کردہ سب سے بڑا مسئلہ بنایا اور اپنے اپنے عوام کو اس میں خواہ مخواہ انوالو کرکے ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ جبکہ یہ ایک سیاسی اقتصادی سہہ فریقی اور انسانی مسئلہ ہے۔ جو دو حکومتوں اور تیسری فریق کی مرضی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اسے غلط طریقے سے جنگوں اور فوجیوں کا مسئلہ بنا کر بگاڑا گیا۔ انڈیا میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً اس مسئلے کے ذریعے ملک کے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈالنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

دونوں ممالک میں جب بھی کوئی حکومت عوامی سپورٹ سے محروم ہوجاتی ہے۔ کشمیر کے لولی پاپ کے ذریعے مقبول بنانے کا نسخہ استعمال کیا گیا ہے۔ خاصکر پاکستانی ڈکٹیٹرز کے لئے یہ سب سے زیادہ زندگی بخش اور بارآور مسئلہ رہا ہے۔ ایوب ضیاء یحیی اور مشرف کو قومی کردار اور سیاسی زندگی اس مسئلے نے دلائی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ نہ ہوتا تو نہ پاکستان کو اتنی آرمی، ملٹری بجٹ اور جنگجویانہ نفرت خیز قومی سوچ کی ضرورت تھی اور نہ ہر دس سال بعد ڈکٹیٹرشب کی شب خون کی۔

پاکستان کی ہر تباہی کی جڑ مسئلہ کشمیر میں مضمر ہے اور ایسا دونوں طرف کے کشمیری بھی اپنے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ ملٹری حکومت کو استحکام دینے کے ساتھ ساتھ سول حکومتیں بھی جب چینی اور پٹرول کے بڑھے ہوئے نرخ کنٹرول نہیں کرسکتیں تو قوم کو کشمیر کا تحفہ دینے کا آسرا دلاتی ہیں۔ اس لیے یہ وہ صدا بہار اور تیربہدف نسخہ ہے جو پارٹیشن کے بعد انگریز جرنیلوں سے لے کر ہر طالع آزما پاکستانی جرنیل اور سیاستدان نے یکساں استعمال کرکے ازمودہ اور مفید پایا ہے۔

اس لیے سیاسی قیادت کو اسے حل کرنے کا موقع ملا ہو (نواز۔ واجپائی۔ مشرف) تو ملٹری قیادت نے حل نہیں ہونے دیا اور ملٹری کو موقع ملا ہے (ایوب۔ شاستری۔ بھٹو) تو منفی سیاسی اثرات اور سیاسی قیادت کے پروپیگنڈے کی ڈر سے حل نہیں کیا جاسکا۔ کانگریس کے تاریخی کردار اور کشمیر کے ساتھ جذباتی لگاؤ کے باوجود، ہندوستان کی جغرافیائی وسعت کی بنا پر ہندوستان میں کشمیر پر اس قدر مذہبی اور عسکری جذباتیت نہیں پائی جاتی جتنی پاکستان میں اس مسئلے پر موجود اور پیدا کردہ ہے۔

اگرچہ کشمیر پر یہ جذباتیت مصنوعی طور پر تخلیق کردہ اور شمالی پنجاب تک محدود اور محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ جنوبی پنجاب سمیت پختونخوا بلوچستان اور سندھ کے اپنے جذباتی قومی سیاسی اور اقتصادی مسائل اور اشوز موجود ہیں۔ ان کے جذباتی مسائل کے لسٹ میں کشمیر کبھی بھی پہلے نمبر پر نہیں رہا۔ صرف شمالی پنجاب اپنے مخصوص جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی مسائل اور ضروریات کی بنا پر کشمیر کے لئے مختلف اور جذباتی سوچ رکھتا ہے۔

پاکستان میں کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ فوجی حکمرانوں کے دور میں اٹھایا گیا ہے۔ جس کی دوسری وجوہات کے علاوہ ایک ڈکٹیٹر کے لئے شمالی پنجاب سے سیاسی حمایت کے حصول کے علاوہ اپنے پاور بیس (آرمی) کی حمایت مدنظر رہی ہے۔ نیز اس دوران اس مسئلے کے لئے حل کرنے کی مخلصانہ اور نیم دلانہ کوششیں بھی کی گئیں ہیں۔ کیونکہ کہتے ہیں۔ ایک جرنیل کی سب سے سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کا دور پرامن گزرے۔ جرنیل ویسے بھی سب سے زیادہ جنگ گریز ہوتے ہیں۔

یہ دراصل اکثر سیاستدان ہوتے ہیں۔ جس کو سیاسی فوائد کے حصول کے لئے جنگ کا شوق ہوتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں جنگیں فوجی حکمرانوں کے دور میں ہی ہوئی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب جرنیل سیاسی عہدہ پر قبضہ کرتا ہے یا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ جنگ پسند ہوجاتا ہے۔ اور مقصد جنگ جیتنا نہیں بلکہ سیاست جیتنی ہوتا ہے۔

آپریشن جبرالٹر کے ردعمل کی بنا پر ایوب خان نے مختصر جنگ کے بعد تاشقند میں اس مسئلے کا حل ڈھونڈا۔ ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی اور ایٹمی حملہ میں پہل نہ کرنے میں پناہ ڈھونڈی۔ مشرف نے کارگل کے ذریعے سیاست میں انٹری دینے کے بعد آگرہ مذاکرات میں پہلکاری کی۔

یہ جاننے کے باوجود کہ کشمیر جیسے ”ملٹری“ مسئلے کا حل پاکستانی سیاستدانوں کے پاس نہیں، انڈیا نے ایوب خان کے علاوہ باقی ڈکٹیٹروں کا دوستی اور مفاہمت کا ہاتھ پکڑنے میں لیت ولعل سے کام لیا ہے۔ پاکستان میں موجودہ نیم عسکری سیٹ اپ، اردگرد تیزی سے وقوع پذیر ہونے والے جغرافیائی حالات، ملائیت اور عسکریت سے جان چھڑانے کی خواہش (جسے اندرونی سیاست میں، تبدیلی، کا مجہول سا نام دیا جارہا ہے ) اور اقتصادی بدحالی، آج کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے سب سے زیادہ موزوں ماحول مہیا کر رہا ہے۔

جس پر عمران خان کی حکومت کے آنے کے ساتھ زیر زمیں اور رازدارانہ انداز میں کام شروع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان نے ازکار رفتہ عسکری تنظیموں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کا عزم کرکے حافظ سعید کو پہلے بیٹے کے ذریعے انتخابی سیاست میں اتارا، اب عدالتی دھوبی گھاٹ اور قانونی واشنگ پاوڈر کے ذریعے صاف کرنے کا بندوبست شروع کیا گیا ہے۔ کرتارپورہ کا کھلا ہوا بارڈر اور ابھینیندن کی بخیریت واپسی سے پہلے عمران خان کے ذریعے بلوائے گئے سدھو نے خواہ مخواہ جنرل باجوہ کو جھپی نہیں ڈالی تھی۔ بلکہ گلے مل کر دونوں نے ایک دوسرے کے کان میں کچھ حوصلہ افزا جملے بھی کہے تھے۔ جس میں مستقبل میں مودی کی کامیابی اور کشمیر کے دیرپا حل کے وعدے اور پکے ارادے بھی ظاہر کیے گئے تھے۔

ابھینیندن نے مودی کی واپسی میں مدد دی۔ تو سدھو نے جرنیل کے وعدوں اور ارادوں کی روشنی میں دوطرفہ سیاسی ہوم ورک میں سفارتکار کا کردار ادا کیا۔ کرتارپورہ کے کھلے بارڈر نے خیرسگالی کے لئے سازگار ماحول تیار کیا۔ تو عمران اور ٹرمپ کے امریکی دورے نے قابل قبول موڈیلیٹز اور ضمانتوں پر مہر تصدیق ثبت کی۔ لیکن دوسری طرف ملائیت نے پاکستانی محاذ پر ختم نبوت اور قادیانیت کا اشو کھڑا کیا تو انڈین محاذ پر مسلمانوں کے ساتھ جے شری رام والی انتاکشری کھیلی جارہی ہے۔

ان دونوں امن مخالف گروہوں نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی کوششوں میں رخنے ڈال کر اپنی قیمت وصول کرنی ہے۔ کشمیر کے اندر بھی وہ عناصر خوش نہیں جن کی زندگی جنگ سے وابستہ ہے۔ اس لیے ممکن ہے۔ کشمیر میں ٹینشن بہت بڑھ جائے جیسا کہ آپریشن جبرالٹر کے بعد بڑھ گئی تھی۔ اور پھر اچانک کوئی تاشقند معاہدہ ہوجائے جس کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے۔ خیال رہے سی پیک کشمیر سے شروع ہوکر گوادر پر ختم ہوجاتا ہے۔ اب کشمیر کے مسئلے کا دیرپا حل کیا ہوگا؟ کیا موجودہ بارڈروں کو تھوڑے سے اگے کرنے کے بعد مستقل سرحد مانا جائے گا؟ کیا کشمیر کے تینوں مقبوضہ حصے ملا کر آزاد کشمیر بنایا جائے گا؟ (ناممکن حد تک مشکل) ۔ یا تیسرا کوئی آپشن استعمال کیا جائے گا؟ خرابی از بسیار کے بعد کچھ نہ کچھ ہونے جا رہا ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments