برطانیہ میں ڈرائیونگ کی مخالفت کا سامنا کرنے والی ایشیائی خواتین


سورکشا اسار

سورکشا اسار نسل پرستانہ طعنوں سے بچنے کے لیے ڈرائیونگ سیکھنے کے لیے پرعزم تھیں

سنہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ایشیائی ممالک سے برطانیہ آنے والی پہلی نسل کی خواتین کے لیے ڈرائیونگ سیکھنا غیر معمولی بات تھی لیکن بعض خواتین اس رواج کو توڑنے کے لیے پر عزم تھیں۔

ایک نئی نمائش میں ان کی کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والی سورکشا اسار کے لیے سنہ 1968 میں برطانیہ پہنچتے ہی ایک نوزائیدہ بچوں کے سکول میں نوکری ملنا کسی خواب کے پورا ہونے سے کم نہ تھا۔

لیکن بس پکڑنے کے لیے ویسٹ بروموِک سے نصف میل پیدل سفر کرنے کے دوران انھیں جو نسل پرستانہ طعنے سننے پڑتے، اس نے ان کے تجربے کو بدمزہ کر دیا۔

انتہائی صدمے کی بات تو یہ تھی کہ ان کو نشانہ بنانے والوں میں بعض لوگ ان کے سابق شاگرد تھے۔

انھوں نے کہا ‘وہ گالیاں دیتے اور تھوکتے۔ میرے لیے یہ بہت ہی بری اور ناخوشگوار بات تھی۔’

سورکشا اسار کی گاڑی چلانے کی خواہش شدید تھی لیکن جنوبی ایشیائی ممالک سے آنے والی تارکینِ وطن برادری میں خواتین کا ایسا کر پانا غیر معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔

ویسٹ بروم وِک سے گزرتے ہوئے انھیں نسل پرستانہ جملوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا

جہاں بعض گھرانوں نے اپنے نئے انگریزی طرزِ زندگی میں بعض عناصر اپنا لیے تھے وہیں انڈیا اور پاکستان میں نسلوں سے چلی آنے والی پدرِشاہی اس راہ میں بڑی رکاوٹ تھی۔

زیادہ تر خواتین کی گھریلو زندگی بسر کرنے اور بچے پالنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی جبکہ مرد کام کرنے کے لیے باہر جاتے۔ خواتین کے لیے گاڑی چلانے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

سورکشا کے شوہر بھی ان کے ڈرائیونگ سیکھنے کے حق میں نہیں تھے۔

‘میں نے ان سے کہا کہ مجھے اپنی گاڑی میں باہر لے جائیں لیکن انھوں نے میری کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی کوئی مشورہ دیا۔ میں نے کسی کی باڑ سے گاڑی ٹکرا دی اور پھر وہ مجھے کبھی باہر نہیں لے کر گئے۔’

لیکن سورکشا نے ہمت نہ ہاری۔ وہ چھپ کر سکول کی لنچ بریک میں تربیت لیتی رہیں۔

ریٹائرڈ ٹیچر سورکشا اسار 84 سال کی عمر میں بھی ڈرائیونگ کرتی ہیں

گھر پر مشق نہ کر پانے کی وجہ سے انھیں ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنے میں دس سال لگ گئے اور ‘پانچ چھ’ بار کی کوششوں کے بعد بلآخر سنہ 1978 میں وہ ٹیسٹ پاس کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور اپنی گھر کی گاڑی ٹویوٹا چلانے کے لائق ہوئیں۔

84 سالہ سورکشا نے، جو اب اپنی مرسیڈیز چلاتی ہیں، کہا: ‘مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی۔ میں نے اپنے شوہر کو کہا کہ میں نے ٹیسٹ پاس کر لیا! وہ اس وقت خوش ہوئے تھے۔’

ان کی کہانی کا پتہ فنکار دویندر بنسل نے چلایا جنھوں نے اسی قسم کی کہانیوں کی تلاش میں دو سال گزارے۔ وہ اس قسم کی خواتین کو جنوبی ایشیا کی ‘پوشیدہ رہنما’ کہتی ہیں کیونکہ ان خواتین نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے راہیں ہموار کیں۔

بنسل کو اپنی والدہ سے حوصلہ افزائی ملی جو خود کبھی گاڑی چلانے کے قابل نہ ہو سکیں کیونکہ کسی نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ جب انھیں دوسری خواتین کی زندگیوں میں حائل ثقافتی رکاوٹوں کا پتہ چلا تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان خواتین کی کہانیاں سامنے آنی چاہییں۔

انھوں نے کہا کہ ‘انھیں برادری کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا، بعض اوقات اپنے ہی گھروالوں کی جانب سے، کئی بار اپنے شوہر کی جانب سے، اور اکثر اوقات ان کے گھر کی کسی خاتون کی جانب سے۔’

ان خواتین کی یہ کہانیاں ’روڈ ٹو انڈیپینڈنس‘ (آزادی کی جانب جانے والا راستہ) نامی ایک نمائش میں پیش کی جارہی ہیں۔

بنسل کے بقول ‘میرے خیال سے انھوں نے یہ کر دکھایا، وہ خواتین کی اس نسل کی نقیب تھیں جنھوں نے واقعتاً اپنی روایت اور لوگوں کے خلاف لڑائی کی اور وہ بس گاڑی چلانا چاہتی تھیں۔

دویندر بنسل کو گاڑی چلانے کی حوصلہ افزائی اپنی والدہ کی گاڑی نہ چلا پانے کی مجبوری سے ملی

‘انھوں نے مجھ جیسی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، گاڑی چلانے اور وہ تمام چیزیں جو آج ہم کرنے کے قابل ہیں، انھیں کرنے کی ہمت اور حوصلہ دیا۔’

بنسل نے 64 سالہ جگدیش کھیرا سے پوچھا جنھوں نے اپنے ‘آگے کی سوچ رکھنے والے’ والد کے سر انھیں ڈرائیونگ سیکھنے دینے کا سہرا باندھا۔

جب وہ محض نو سال کی تھیں تو ان کے اہل خانہ نے پنجاب کے شہر جالندھر سے نقل مکانی کر کے سنہ 1964 میں لیمنگٹن سپا میں اپنی زندگی کا آغاز کیا۔

سکول کے بعد انھوں نے اپنی برادری میں فارمیسی میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے پورٹس ماؤتھ منتقل ہو کر ایک روشن مثال قائم کی۔

لیمنگٹن کے دولت مشترکہ کلب میں ان کے والد کے دوست انھیں یہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے کہ ‘تمہیں کیا معلوم کہ وہ کبھی واپس بھی آئے گی؟’

جب وہ لوٹ کر ویسٹ مڈلینڈز آئیں تو جگدیش اپنے نئے کریئر کے فروغ کے لیے ڈرائیونگ سیکھنے کا سوچنے لگیں۔

وہ کہتی ہیں ‘برادری کی جانب سے بہت سی باتیں کہی گئيں کہ انھیں اس کی ضرورت نہیں، اس نے تعلیم تو حاصل کر ہی لی ہے، اب سسرال والوں کو اس کا خیال رکھنے دیں۔’

جگدیش کھیرا نے اس وقت انڈیا میں سب کو حیران کر دیا جب وہ اپنے شوہر کو گاڑی میں گھما رہی تھیں

‘وہ میرے والد کو کہتے کہ اس کے لیے گاڑی چلانا سیکھنا ضروری نہیں ہے۔ اُن دنوں کہیں جانے کے لیے بس کا استعمال کیا جاتا، اس زمانے میں ڈرائیونگ عیاشی سمجھی جاتی تھی اور آپ کو اس کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔‘

توقع کی جاتی تھی کہ ‘آپ بس اپنا کام کریں۔ اپنے بل ادا کریں، اپنے بچوں کو سنبھالیں اور پھر دوسرے کام میں لگ جائيں۔’

لیکن اپنے والد اور چچا کی وجہ سے جگدیش نے ڈرائیونگ سیکھ لی۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنی ذاتی گاڑی بھوری ڈاٹسن بھی خریدی۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘بہت معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔ خیال کریں اس زمانے میں کسی ایشیائی لڑکی کا شوروم جانا لیکن مالک ہونے کا احساس اور فخر بہت حیرت انگیز تھا۔ واقعی حیرت انگیز۔ آپ کی ذاتی گاڑی ہونا بڑی بات تھی کیونکہ اس زمانے میں ہر کوئی ہر چیز شیئر کرتا تھا۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ڈرائیونگ سیکھنے نے ‘آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی آزادی دی۔’

جب ان کی شادی ہندوستان میں رہائش پذیر ایک شخص سے طے ہوئی تو انھوں نے اسے ڈرائیونگ کی باریکیاں بتائیں جو ان کے برطانیہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے ضروری تھیں۔

چرنجیت اور جگدیش کھیرا

چرنجیت سونگ کھیرا کہتے ہیں کہ ‘انڈیا میں ڈرائیونگ کا کوئی نظام نہیں تھا۔ بس بائیں دیکھو، دائیں دیکھو اور گاڑی بڑھا دو۔’

سنہ 1980 میں جب وہ انڈیا آئے تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ مسافر کی سیٹ پر ہیں جبکہ ان کی اہلیہ گاڑی چلا رہی ہیں۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘لوگ اپنے سکوٹر اور بائیک روک کر ہمیں دیکھتے۔ وہ کہتے کہ ‘یہ کیسے گاڑی چلا سکتی ہے؟’

‘میں ہنستا رہا اور کہا کہ ان پر دھیان نہ دو۔ وہ بہت آزاد خاتون ہیں اور مجھے ان پر فخر ہے۔’

وولورہیمپٹن یونیورسٹی کے سکھ اور پنجابی سٹڈیز مرکز کے اوپندرجیت ٹکھر کہتے ہیں کہ جن خواتین نے ڈرائیونگ کرنے کی ہمت کی ‘وہ پدرشاہی رویے کے خلاف جانے والوں کی واضع مثال بن گئيں۔’

‘بہت سی خواتین کام نہیں کرتی تھیں تو ان کے لیے ڈرائیونگ سیکھنا کوئی ضروری چیز نہیں تھی۔ اگر انھیں دکان پر جانا ہے تو انھیں دکان پر لے جایا جاتا۔ سکول اتنے پاس تھے کہ وہ وہاں پیدل چلی جاتیں۔‘

یہ بہت ہی مربوط اور آپس میں جڑے ہوئے خاندان تھے جہاں بس یہ توقع کی جاتی تھی کہ آپ کو ڈرائیونگ سیکھنے کی ضرورت نہیں لیکن اس طرح وہ انھیں ان کی آزادی سے محروم کرتے تھے۔

دویندر بنسل نے ویب سائٹ لانچ کی اور لوگوں سے اپنی کہانیاں بیان کرنے کے لیے کہا

‘جنھوں نے ڈرائیونگ کی وہ آج کی نوجوان خواتین کو بااختیار بنانے والی خواتین ہیں۔’

بنسل اس طرح کی خواتین کی کہانیوں کا ایک آرکائیو بنانا چاہتی ہیں جنھوں نے کار چلانے کی ہمت دکھائی اور اس کے لیے انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ تصاویر کے ساتھ اپنی کہانیاں ایشین ویمن اینڈ کار نامی ویب سائٹ پر بھیجیں۔

ویب سائٹ لانچ کرنے کے بعد سے انھیں آسٹریلیا، ڈھاکہ اور فرانس سے بھی کہانیاں موصول ہوئیں۔ انھوں نے اس ردِعمل کو ‘حیرت انگیز’ قرار دیا ہے۔

بنسل کہتی ہیں کہ ‘میں خود کو بہت ہی خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے لوگ اپنی تصاویر اور کہانیاں بھیج رہے ہیں۔ یہ بڑی ذمہ داری ہے اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ ان کہانیوں کو میں اس یقین کے ساتھ رکھوں تاکہ مستقبل کی جنوبی ایشیائی خواتین کو جنوبی ایشیائی خواتین کی حقیقی تاریخی ریکارڈ تک رسائی حاصل ہو۔‘

‘میں سدا ان کی حوصلہ افزائی اور قربانیوں اور ان کی نسل کی تمام خواتین کی قربانیوں کی مشکور رہوں گی۔’

دی ایشیئن ویمن اینڈ کارز: روڈ ٹو انڈیپینڈنس نامی یہ نمائش سینڈول فوٹوگرافی فیسٹیول بلاسٹ کا حصہ ہے اور یہ ویسٹ بروموک میں برٹش مسلم سکول میں 29 جون تک جاری رہے گی جہاں داخلہ مفت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp