نیاگرا آبشار کے سائے میں!


پر شکوہ، پر ہیبت، شاندار اپنے تمام جمال کے ساتھ۔ خدائے ذوالجلال کے بے پناہ مظاہر میں سے ایک ! اس کی چنگھاڑ یں تھیں جیسے اژدہے کی پھنکاریں !

تا حد نظر پانی ہی پانی !

میں اس کی پھواروں تلے بھیگتی تھی، ہنستی تھی اور آنکھیں نم ہوتی تھیں ! خدا جانے پھوار تھی یا احساسات و جذبات کی نمی !

امریکہ میں دن تیزی سے بیت رہے تھے۔ واپسی قریب آ رہی تھی۔ ایک خواہش تھی، جس کا خواب بہت عرصے سے جاگتی آنکھوں سے دیکھتی تھی اور وہ تھا نیاگرا آبشار !

نیاگرا واٹر فالز قدرت کا ایک ایسا تحفہ جو ہزاروں سال پہلے وجود میں آیا اور یہ امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پہ تین آبشاروں کا مجموعہ ہے۔ سب سے بڑی ہارس شو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کا کام دیتی ہے۔ باقی دو، امریکن آبشار اور برائڈل ویل آبشار امریکی علاقے میں آتی ہیں۔ لونا اور گوٹ نامی جزیرے تینوں آبشاروں کو علیحدہ کرتے ہیں۔ ان آبشاروں کی اونچائی پچاس میٹر ہے اور روزانہ چھ ملین کیوبک فٹ پانی ان سے گرتا ہے۔

ہماری صاحب زادی کا خیال تھا کہ ہم امریکہ کی سرحد پہ واقع نیاگرا سٹی جائیں، امریکی طرف سے نظارا کریں لیکن ہمارا دل مچلتا تھا کہ کیوں نہ کینیڈا یاترا کی جائے۔ دو تین دن کے بحث مباحثے کے بعد ہم جیت گئے، ہمیشہ کی طرح۔ اگلا سوال تھا کون سا راستہ اور کون سی سواری؟ جہاز پہ نیویارک سے ٹورونٹو اور پھر نیاگرا، ریل سے نیویارک سے سیدھے نیاگرا، یا پھر کچھ اور، کچھ اور ایڈونچر !

اس سال ‘ہم سب’ سے رشتہ بنا اور قلم کاروں سے بھی آشنائی ہوئی۔ سب سے پہلی دوست تھیں گوہر تاج جو قلم کے میدان کی پرانی کھلاڑی اور ہمارا یہ حال کہ قاری سے لکھاری میں بدلنے کی بے قراری چھپائے نہ چھپتی تھی۔ گوہر سے جب بھی بات ہوتی وہ خوب ہنستیں۔ اب ہم گوہر کی سرزمين پہ تھے، یونہی خیال آیا کہ پوچھوں نیاگرا سفر میں ہمراہ ہونا پسند کریں گی۔ گرم جوشی سے اثبات میں جواب ملا۔

اور اب ہم فضا کے راستے ڈیٹرائٹ جا رہے تھے جہاں سے ہم نے سڑک کے راستے نیاگرا پہنچنا تھا۔ موسم بہت خوشگوار تھا اور نیویارک سے ڈیٹرائٹ کی فلائٹ ایسے ہی تھی جیسے اسلام آباد سے کراچی۔ گوہر تاج کا گھر ویسا ہی گرمجوش اور محبت بھرا تھا جیسا ہم نے تصور کیا تھا۔ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ پہلی ملاقات ہے۔ یوں لگتا تھا برسوں کے بچھڑے مل گئے ہیں۔ دو عورتوں کی باتیں، باتیں اور باتیں، ہنسی اور قہقہے !

سونے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن صبح وقت پہ روانہ ہونا تھا۔ صبح بیدار ہونے میں ہم صبح خیز ہیں اور میزبان کا بھی یہی حال تھا۔ گوہر کے مہربان ہاتھوں کا بنایا ہوا ناشتہ کیا، گاڑی میں سامان بھرا اور ہنستے،مسکراتے، گنگناتے عازم سفر ہوئے۔

ڈیٹرائٹ مشیگن سٹیٹ کا سرحدی شہر اور سرحد کے پار کینیڈا کا شہر ونڈسر ہے۔ سرحد پہ پہنچے، وہاں تعینات خاتون امیگریشن آفیسر نے جونہی ہمارا ہرا پاسپورٹ دیکھا، تھوڑی چوکنی ہوئی، ہمیں گھور گھور کے کچھ کھوجنے کی کوشش کی اور فورا کمپیوٹر میں ہمارا حسب نسب معلوم کرنے میں مصروف ہو گئی۔ ہم نے چہرے پہ معصومیت کے رنگ لانے کی کافی کوشش کی مگر بقول ہمارے گھر والوں کے کہ ہمارے چہرے پہ پڑنے والی پہلی نظر ہی دیکھنے والے کو خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے، خیر سے کافی چنگیزی چہرہ پایا ہے۔ خیر وہ بی بی ہمت والی تھی، نہ ڈری اور نہ ہی ہماری معصوم بننے کی ناکام کوششوں سے متاثر ہوئی۔ کمپیوٹر میں کچا چٹھا پڑھنے کے بعد آئی اور پوچھنے لگی کہ کہاں کا ارادہ ہے اور کیوں ہے؟ بصد احترام عرض کیا کہ ہم بڑی دور صحراؤں سے آئے ہیں، ارادہ باندھا ہے کہ بہت سا پانی دیکھا جائے۔ اسے بات سمجھ آئی یا نہیں، لیکن ہمیں داخل ہونے کا اشارہ مل چکا تھا۔

گہرا نیلا آسمان تھا، سورج چمکتا تھا، فضا میں مہک تھی، طویل راستہ تھا جس پہ گاڑی دوڑتی تھی، غزلوں کی موسیقی میں ہماری باتوں کے لفظ گڈمڈ ہو کے بکھرتے تھے۔ کافی کی خوشبو اڑتی تھی اور ہم دوست کے ساتھ مزے میں تھے۔

چار گھنٹے یوں گزرے جیسے چار گھڑیاں! ہم سائن بورڈ پڑھتے تھے اور گوہر سٹیرنگ ویل سنبھالتی تھیں۔ نیاگرا شہر میں داخل ہوئے اور آبشار کی طرف رخ کیا، ہمارا قیام آبشار سے ایک کلومیٹر کی دوری پہ تھا۔

آج کل گوگل نے دنیا کے راستے ہتھیلی پہ کھول دیئے ہیں۔ ہر ہاتھ میں عمرو عیار کی داستانوں جیسا جادو کا ایک آلہ ہے، جو دیکھنا ہو، حکم دیجیئے اور دیکھئے۔ ہم بھی اپنے موٹل کو قریب آتے دیکھ رہے تھے۔

ریسپشن ڈیسک پہ ایک صاحب کھڑے تھے۔ جھٹ پٹ ہمارا اندراج کیا اور چابی ہاتھ میں پکڑائی۔ معلوم ہوا اس خوبصورت موٹل کے مالک ہیں۔ یہ معلوم ہونے پہ کہ ہم دنیا کے دوسرے کونے سے آئے ہیں، انداز میزبانی میں مزید گرم جوشی آگئی۔

کمرے میں پہنچ کے ہم نے فوراً چائے بنائی، تازہ دم ہوئے اور آبشار تک پہنچنے کے لئے تیار ہو گئے۔ آبشار کے راستے میں ایک طویل بازار، انواع واقسام کے ریسٹورنٹ، ہوٹل، دوکانیں اور بچوں کے کھیل تماشے کی تمام جگہیں دیکھ کے ہمیں اپنا پیارا مری یاد آگیا۔ مری کی مال روڈ جیسا ہی ہلا گلا، بے فکرے سیاح، آسمان پہ تیرتے بادل، فضا میں ایک خوشگوار شور، قوت مشامہ کو چھیڑتی مہک، وطن سے دوری اور ماضی ہمیں پرانی یادوں سے جوڑتا تھا۔

ایک موڑ مڑا، ڈھلان اترے اور اب ہم اس منزل کے سامنے تھے جس کے لئے نیویارک سے چلے تھے یا یوں کہیے کہ ایک خواہش کے ساتھ بہت برسوں سے چل رہے تھے۔

بہت نیچے دریا نظر آتا تھا اور تین مختلف آبشار اس میں گرتے تھے،

انتہائی تیزی اور گرتے پانی کے شور کے ساتھ! دریا میں سیاحوں سے بھری بوٹس تیرتی تھیں۔ بوٹ میں جانے کے ٹکٹ مشین سے خریدے۔ بوٹ میں سوار ہونے کے لئے لفٹ تھی جو سب سیاحوں کو لے کر نیچے جا رہی تھی۔ جونہی نیچے پہنچے، ایک شخص کو زور زور سے ہاتھ ہلاتے دیکھا، وہ ہمیں بوٹ میں سوار ہونے کا اشارہ کر رہا تھا۔ ہمیں پاکستان میں بسوں سے لٹکتے کنڈیکٹر یاد آ گئے جو چیخ چیخ کے سواریاں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ گوہر اور میں تصویریں کھینچنا چاہتے تھے سو ہم نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا۔

تصویریں کھینچ کے جونہی فارغ ہوئے، اگلی بوٹ آ چکی تھی۔ سوار ہونے سے پہلے ہم نے گہرے گلابی رنگ کے پلاسٹک رین کوٹ پہنے اور بوٹ میں داخل ہو کے ڈیک کی طرف چلے۔ بھانت بھانت کے لوگ، دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے، سب گلابی رین کوٹس میں ملبوس، ایک اشتیاق بھری بےتابی کے ساتھ ہمارے ساتھ تھے۔

ہمیں سیاحت کا شوق تو ہے ہی لیکن ساتھ میں گھومتے ہوئے سیاح دیکھنے میں بھی بہت مزا آتا ہے۔ اجنبی دنیاؤں سے آئے ہوئے، اجنبی زبانوں میں بات کرتے ہوئے اپنی اپنی کہانیوں کے ساتھ، ہمیں تجسس و اشتیاق میں مبتلا کرتے ہیں۔

بوٹ پانیوں میں رواں دواں تھی اور سب ریلنگ پہ جھکے جاتے تھے۔ گوہر اور میں بھی ایک گوشہ سنبھال چکے تھے۔ بوٹ امریکی اور برائڈل ویل آبشاروں کے نزدیک ہوئی، چمکتا ہوا پانی پوری قوت سے گر رہا تھا، نیچے دریا میں کونجیں تیر رہی تھیں۔

لیکن ابھی وہ منظر نہیں آیا تھا جس نے یاداشت کے پردے پہ ہمیشہ کے لئے ثبت ہونا تھا۔

بوٹ پانی کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ یکایک ڈولنے اور اچھلنے لگی، اور ایک مہیب آواز کے ساتھ پانی ہمیں بھگونے لگا۔ ہم نے ریلنگ زور سے تھام لی۔ ایک پانی کی چادر تھی جو تا حد نظر چھائی تھی۔ یوں لگتا تھا آسمان سے پانی کی لہریں پھوٹتی تھیں اور نیچے کی طرف مچلتی، شور مچاتی، سیاحوں کو بھگوتی، گرتیں تھیں اور بوٹ دائیں بائیں ڈولتی تھی۔ تصویر لیتے ہوئے کیمرہ گیلا ہوتا تھا اور اب گرا کہ اب، والی صورت حال تھی۔ گلابی رین کوٹ سیاحوں کو تحفظ دینے میں ناکام تھے لیکن سب ایک سرخوشی میں بھیگتے تھے۔

ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ کائنات اور کچھ نہیں سوائے راگوں کی تان جیسے پانی کے شور، ڈولتی بوٹ، کھلے آسمان تلے چاندی جیسی دیوار اور بھیگتے تن کے سوا۔ جی چاہتا تھا یہ لمحہ جاوداں ہو، وقت کی رفتار تھم جائے اور ہم اسی طرح ہلکورے لیتے، رم جھم کا جلترنگ سنتے زندگی بتا دیں۔ لیکن وقت کہاں رکا کرتا ہے اپنے قیدی مسافروں کے لئے اور اگلی منزل کی پکار تو پہلے سے طے شدہ امر ہے۔

بوٹ آبشار کے سامنے سے گزر چکی تھی، جلترنگ دھیما پڑ چکا تھا، لمحہ جاوداں گزر چکا تھا اور ہم ابھی تک مسکراتے تھے نم آنکھوں کے ساتھ۔

شام ڈھل رہی تھی۔ دن بھر کے تھکے ماندے اب اپنے ٹھکانے پہ لوٹنے کی فکر میں تھے۔ گوہر اور ہم آہستہ آہستہ موٹل کی طرف چلتے تھے۔

یادوں کی کتاب میں ایک اور باب کا اضافہ ہو چکا تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).