کوئی بڑی خبر بن رہی ہے


دل دھڑک رہا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں بھاری تعداد میں بھارتی افواج کی تعیناتی کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس کا تعلق بھارتی یوم آزادی سے ہے؟ بھارتی وزیر اعظم اس یوم آزادی پر بھارتی عوام کو کیا کہنے جا رہا ہے؟ امریکی صدر نے کشمیر کا ذکر محض دو ہفتے کی مدت میں دو مرتبہ کیوں کیا؟ وہ کیوں عمران خان اور مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اسے مسلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی اعتراض نہیں؟ کیوں بھارتی وزیر اعظم نے ایک مرتبہ بھی اپنے ٹوئیٹر سے دو ٹوک انداز میں امریکی صدر ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید نہیں کی کہ اس نے خود ٹرمپ کو ثالثی کی پیشکش کی تھی جبکہ یہ موقف کسی اور کا نہیں خود اس کی حکومت کے محکمہ خارجہ کا ہے؟

کیا یہ سب اتفاق ہے؟ ہر گز نہیں۔ عمران ٹرمپ ملاقات میں کن باتوں پر اتفاق ہوا تھا؟ اس کی کوئی باظابطہ سرکاری تفصیل دستیاب نہیں۔ جو پریس کانفرنس کی گئی وہ گفتگو سے قبل تھی۔ اصل بات تو باضابطہ مزاکرات تھے۔ کیا تمام مزاکرات افغانستان سے متعلق ہی تھے یا کشمیر پر بھی کسی فیصلے پر اتفاق ہو چکا ہے؟ ٹرمپ عمران ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا؟ میری نظر سے تو گزرا نہیں ، آپ نے پڑھا؟

عمران ٹرمپ ملاقات کے اہتمام میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی کوششوں کا ذکر ہوا ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان کس اہتمام سے ہوا تھا ، عمران خان سے ان کا قریبی تعلق بنا اور یہاں کا دورہ مکمل ہو نے کے بعد محمد بن سلمان کا اگلا دورہ بھارت کا تھا جہاں ان کا میزبان نریندر مودی روایتی پروٹوکول نظر انداز کر کے خود ایئرپورٹ پر ولی عہد کو لینے موجود تھا۔ کیا کشمیر کے کسی ممکنہ حل میں محمد بن سلمان کا کوئی کردار ہے؟

بھارت اور پاکستان کے باخبر حلقے ایک مدت سے متفق ہیں کہ مسلہ کشمیر کا کوئی ایسا حل موجود نہیں جسے بھارت ، پاکستان اور کشمیر میں یکساں مقبولیت حاصل ہو، لہذا کسی بھی حل میں کوئی فریق بھی مکمل فتح کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ جو بھی حل ہو گا اور جب بھی ہو گا ، ان تینوں فریقین کو کچھ نہ کچھ چھوڑنا پڑے گا۔ کیا بھارت اور پاکستان اپنی روایتی پوزیشن چھوڑنے آمادہ ہو چکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی آمد پر پاکستان سے رسمی مذمتی بیانات کے علاؤہ کچھ نہیں ہوگا ۔

عمران خان نے آج قومی سلامتی سے متعلق اہم ترین اجلاس کی صدارت کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ کشمیر میں سنگین صورتحال کے بعد ثالثی کا وقت آن پہنچا ہے ۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اعلیٰ ترین بھارتی قیادت پاکستان ، سعودیہ اور امریکہ کی مرضی اور علم سے موجودہ موومنٹ کر رہی ہے تو پھر بھارتی فوج ، پاکستان پر مسلسل الزام کیوں لگا رہی ہے کہ پاکستان سے جیش کے لوگ کشمیر میں کارروائی کر رہے ہیں۔ یہ الزام بھی بھارتی میڈیا میں مسلسل لگ رہا ہے کہ پاکستان ، لائین آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کیا یہ فوج منتقل کرنے کا بہانہ ہے؟ سامنے نظر آرہا ہے کہ بھارت کشمیر پر کوئی ایسا فیصلہ کرنے جا رہا ہے جس کا ردعمل بہت شدید ہو گا جس کے بندوبست کے لئے بھاری تعداد میں فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور غیر روایتی ڈپلومیسی کا دور ہے ۔ امریکی صدر ٹرمپ، بھارتی وزیر اعظم مودی ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان چاروں ہی غیر روایتی سیاست دان اور حکمران ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ٹرمپ عمران ملاقات میں جنرل قمر جاوید باجوہ موجود تھے۔ مطلب جو معاملات بھی طے پائے ان میں پاکستان کی جانب سے سول اور فوجی دونوں قیادتیں موجود تھیں ۔ کیا بہتر سال کے بعد آخر کار یہ مسلہ اپنے حل کی جانب جا رہا ہے؟ کیا جنرل باجوہ کو پنٹاگون میں ملنے والی اکیس توپوں کی سلامی محض افغانستان سے متعلق امور پر کسی امید کی وجہ سے تھی یا اس کا تعلق کشمیر سے بھی تھا؟

 دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ کوئی حل ایسا نہیں جس پر تینوں فریق مکمل فتح کی پوزیشن میں ہوں۔ جو بھی حل ان حکمرانوں کے مابین طے ہوا ہے غالباً اس کی طرف پہلا قدم بھارت نے اٹھا دیا ہے ۔ یہ مسلہ جب بھی حل ہو گا دونوں جانب سے اس کا منفی ردعمل بھی ہو گا جسے قابو کرنے کی تیاری لگتا ہے کر لی گئی ہے۔

اعلان ہوا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر اٹھارہ اگست کو قوم سے خطاب کریں گے۔ کیا اس خطاب سے مسلہ کشمیر کے کسی ممکنہ حل کا کوئی تعلق ہے؟

اگر پاکستان کی موجودہ سول اور فوجی قیادت مسلہ کشمیر ، باعزت طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ایک کام اتنا بڑا ہوگا کہ نہ صرف عمران خان اور ان کے سپورٹرز کی تمام دیگر غلطیاں پس پردہ چلی جائیں گی بلکہ اس کا کریڈٹ ، امریکی صدر اپنے عوام کی سامنے انتخابی مہم میں لے گا، بھارتی وزیر اعظم مودی اپنے عوام کے سامنے اور سعودی ولی عہد بجا طور پر اپنے حلقہ اثر میں اس کا کریڈٹ لیں گے ۔

پاکستان کی جانب سے بھارت کو افغانستان کا راستہ دینے کی پیشکش ہو چکی ہے جس کا جواب ابھی تک نہیں آیا ، کیا یہ جواب کشمیر کے کسی ممکنہ حل سے جڑا ہے؟

کیا کریں کہ ماضی کے ڈسے ہم لوگ خواب اور امید سے ڈرنے لگے ہیں لیکن اگر پاکستان اور بھارت مسلہ کشمیر کو حل کر کے آخر کار تعاون کا کوئی راستہ ڈھونڈ نکالیں تو یہ برصغیر میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے لئے ہی نہیں تمام ہمسائیوں کے لئے بھی بہت بڑی خوشخبری ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).