کشمیر: فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون نظر بند، دفعہ 144 نافذ


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی اور جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو ان کے گھروں میں نظربند کر کے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق حکام نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 144 نافذ کر کے وادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تا حکم ثانی بند کر دیا ہے۔

دفعہ 144 کے تحت لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہو گی اور تمام تعلیمی ادارے بھی بند رہیں گے۔ اس دوران، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کو بھی بند کر دیا ہے۔

حکام نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہزاروں اضافی فوجیوں کو بھی کو تعینات کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر سے غیر کشمیریوں کا انخلا کیوں ہو رہا ہے؟

فوجی مشقیں، حکم نامے، افواہیں: وادی میں خوف

دس ہزار اضافی فوج، کشمیر افواہوں کی گرفت میں

’دفعہ 35 اے گئی تو کشمیر فلسطین بن جائے گا‘

جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ انھیں گھر میں نظر بند کیا جا سکتا ہے۔

اپنے ٹویٹ میں ان نے مزید کہا ’ان کی اور دیگر رہنماؤں کی نگرانی کا عمل شروع کیا گیا ہے اور اس حقیقت کو جاننے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔‘

جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’ہسپتالوں کے عملے کو کرفیو پاسز جاری کر دیے گئے جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے صورت حال پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’یہ رات بہت لمبی ہونے جا رہی ہے، پتا نہیں کل کیا ہونے والا ہے۔‘

محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ ‘کتنی عجیب بات ہے کہ ہم جیسے منتخب نمائندے جو امن کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، گھر پر نظر بند کردیے گے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی آواز بند کی جا رہی ہے’۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا ‘یہ وہی جموں و کشمیر ہے جس نے جمہوری سیکولر بھارت کا انتخاب کیا لیکن آج ناقابل فہم حد تک ظلم و ستم برداشت کررہا ہے، جاگو انڈیا’۔

انڈین کی معروف صحافی برکھا دت نے ٹویٹ کیا ’یہ مسئلہ نہیں کہ جموں وکشمیر سے متعلق کیا فیصلہ ہو گا لیکن منتخب نمائندوں کو ان کے گھر پر نظر بند کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

انھوں نے کہا کہ دفعہ 144 لگا دی گئی جس کے تحت ریلی اور اجلاس پر پابندی ہو گی لیکن انھیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا’۔

دوسری جانب اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) مقبوضہ اور آزاد کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔

او آئی سی نے ایک ٹویٹ میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال سمیت مقبوضہ کشمیر میں پیراملٹری فورسز کی تعیناتی اور بھارتی فوج کی جانب سے شہریوں کو ممنوعہ کلسٹر بموں سے نشانہ بنائے جانے پر اسلامی تعاون تنظیم کو انتہائی تشویش ہے۔

واضح رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اچانک دس ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے ریاست میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ مرکزی حکومت ریاست کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈوبال نے گشتہ ہفتے خاموشی سے سرینگر کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے پولیس، فوج اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ سیکورٹی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ ان کے دورے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

کشمیر

انڈیا کے آئین میں جموں کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔

کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اگر آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گر گئی تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں بس جائیں گے جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔

یہ خدشہ صرف علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں۔ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاو میں پیش پیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ اتوار اور پیر کو کشمیر ہی نہیں بلکہ کرگل اور جموں کے سبھی مسلم اکثریتی علاقوں میں سخت ترین ہڑتال کی گئی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32471 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp