چنگاری اور بارود کا ڈھیر


آج کل جہاں جائیں اک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ کوئی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے تو کسی کو اپنے کاروبار کے مندے کی فکر کھانے لگی ہے۔ کوئی اپنے بچوں کے کے لیے سستے سکول کی تلاش کر رہا ہے تو کسی نے نوکری کے ساتھ چھوٹا موٹا کاروبار ڈھونڈنا شروع کر دیا ہے مگرتاریخی معاشی بحران کے اس دور میں سب بے سود۔

سوال بڑھتے جارہے ہیں جواب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تبدیلی کے سبز باغ کا دھوکا کھانے والے پوچھ رہے ہیں کہ لوٹ مار کا پیسہ کب واپس ہو گا؟ مہنگائی کے مارے جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ڈالر اور پٹرول کہاں جا کر رکے گا؟ کسی کا سوال ہے کہ یہ حکومت ایسے ہی چلے گی توکوئی جاننا چاہتا ہے کہ نواز شریف اب جیل میں ہی رہے گا؟ کوئی منتظر ہے کہ اب کس کے جیل جانے کی باری ہے؟ عام سرمایہ کار پوچھ رہا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ مزید کتنا نیچے جائے گا؟

کام نہ ہونے کی وجہ سے لاہور میں واقع کئی فیکٹری مالکان چھانٹیاں کر رہے ہیں بعض نے یہ کہہ کراپنے ورکرز کو جبری چُھٹی پر بھیج دیا ہے کہ جب کام ہوگا تو واپس بلا لیں گے۔ ان ورکرز کا تعلق شکرگڑھ، نارووال، میرپور، ڈی جی خان، لیہ جیسے دورافتادہ اور غربت زدہ علاقوں سے ہے۔ اب آئے روز فون کررہے ہیں کہ کام کب شروع ہوگا تاکہ وہ واپس لاہور آسکیں۔ بعض فیکٹری مالکان کا کہنا ہے کہ جب تک ان میں سکت ہے وہ اچھے کاریگروں کو بغیر کام کے تنخواہ دے رہے۔

ایک فیکٹری مالک نے بتایا کہ اس کے کاریگر کئی روز سے پورا دن کام کیے بغیر گھروں کو جا رہے تھے تو ایک روز چند کاریگروں نے درخواست کی کہ انہیں بہت شرمندگی ہے کہ وہ کام کیے بغیر تنخواہ لے رہے ہیں۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ وہ کہیں اور دیہاڑی لگا لیتے ہیں تاکہ مالک کا بوجھ بانٹ سکیں اور پھر جب کام ہوگا تو واپس آجائیں گے۔ فیکٹری مالک کا کہنا تھا کہ میرپور سے ایک مزدور کا روز فون آرہا ہے کہ وہ مسلسل بے روزگاری سے بہت زیادہ تنگ ہے اور اپنے گھر کا خرچہ نہیں اٹھا پا رہا۔ اسے شدت سے انتظار میں ہے کہ وہ واپس لاہور آ کر کام شروع کرے۔

تاجر اپنی جگہ پر پریشان ہیں کہ حکومتی پالیسیوں سے ہر قسم کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا اور ستم ظریفی یہ کہ آئے روز ایف بی آر کے نوٹس مل رہے ہیں۔ حکومت ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ کن تاجروں کے خلاف کارروائی کرنی ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ایک طرف چھوٹے موٹے تمام تاجروں کو نوٹس بھیجے جا رہے ہیں دوسری طرف اعلانات سامنے آتے ہیں کہ بڑے مگرمچھوں کی فہرستیں تیار کر لی گئی ہیں۔ اس میں بھی یہ اندازہ کیسے لگانا ہے کہ جو بڑے بڑے تاجر کیش کا کام کررہے ہیں ان سے ٹیکس کتنا اور کیسے وصول کرنا ہے۔ زیادہ تر تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور تاجروں کے درمیان رابطے کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔

میکلوڈ روڈ کے ایک ادنیٰ تاجر کو حال ہی میں ٹیکس کا ایک نوٹس موصول ہوا اور حکم دیا گیا کہ یہ ٹیکس آپ نے ہر صورت ادا کرنا ہے۔ اب وہ پریشان تھا کہ کاروبار کے حالات مزید خراب ہیں اور اوپر سے یہ بھاری بھرکم ٹیکس نوٹس مل گیا۔ وہ یہ بھی جاننا چاہ رہا تھا کہ ٹیکس کی اس رقم کا تعین کیسے کیا گیا۔ اس سے تو ٹیکس کے محکمے کے کسی اہلکار نے رابطہ نہیں کیا کہ اس کا کاروبار کس نوعیت کا ہے اور اس سے اسے کتنی ماہانہ آمدن ہو رہی ہے اور اس پر کتنا ٹیکس بنتا ہے؟

پریشانی کے عالم میں اس نے مارکیٹ کے دیگر دکانداروں سے مشورہ کیا تو انہوں کہ ایسا ٹیکس نوٹس پچیس کے قریب لوگوں کو موصول ہوا ہے۔ انہوں اسے تسلی دی کہ ان کی محکمہ کے اہلکار سے بات چیت ہو چکی ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کا بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس طرح سب نے ایک مناسب رقم ٹیکس اہلکار کے لیے جمع کی اور اگلی ملاقات میں معاملات طے پا گئے۔

دکاندار اور تاجر یہ بھی گلہ کر رہے ہیں کہ کوئی ان کے پاس تو آئے اور بتائے کہ انہوں نے کیسے فائلر بننا ہے اور کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے اور کیا گارنٹی ہے کہ ایف بی آر کے راشی افسر اور اہلکار انہیں تنگ نہیں کریں گے۔ عملی طور پر ابھی تک کچھ سامنے نہیں آیا مگر ایف بی آر کے راشی اہکاروں اور افسروں کا ریٹ ضرور دگنا ہو گیا ہے۔

عوام کہتے ہیں کہ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے۔ بے بسی کے عالم میں لوگوں کے اندر غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بداعتمادی کا گرد و غبار پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ایسے حالات میں سینیٹ میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے دوران ننگی جارحیت نے عوام کو ایسی زک پہنچائی ہے کہ ان کا پورے نظام سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ امید کی تمام کرنیں تیزی سے مدھم ہو رہی ہیں اوروقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے ہوئے تذبذب اور بے چینی نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ معاشی گومگو کی حالت، روزگارکی پریشانی، کاروبارکا مندہ اور سیاسی پستی آہستہ آہستہ معاشرے کوایک بارود کے ڈھیر میں تبدیل کررہی ہے۔ اس عالم سراسیمگی میں ایک چنگاری کسی بھی لمحے آگ لگا سکتی ہے۔ ریاست کے اصل حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).