ٹک ٹاک: ذریعہء تفریح یا دجالی سلسلے کی ایک کڑی


ںہ طبعیت ہو جن کی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا
(علامہ محمد اقبال۔ بانگِ درا)

2016 میں اینڈروئیڈ اور آئی فون آپریٹنگ سسٹمز کے لیے متعارف ہونے والی ٹک ٹاک ایپلیکیشن جس کے دوسرے معنی ”ارتعاش پیدا کرنے والی آواز“ کے ہیں آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ موبائل میں نصب ہونے والی ایپ بن چکی ہے۔ چائنہ میں یہی ایپ Douyin کے نام سے 2016 میں متعارف ہوئی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کے عرصے میں تیار ہونے والی اس معمولی ایپ نے ایک سال کے مختصر عرصے میں دس کروڑ صارف بنالیے۔

ٹک ٹاک پر مہارت کے ساتھ کثیر تعداد میں مختلف طرح کی ویڈیوز بنانے والوں کو ٹک ٹاکرز کہا جاتا ہے۔ ٹک ٹاک پچھتر زبانوں اور کھربوں ڈاؤن لوڈز کے ساتھ ایشا، امریکہ اور دیگر کئی ممالک میں اب تک کی مقبول ترین تفریحی سوشل میڈیا ویڈیو ایپ بن چکی ہے۔

اس تفریحی ایپ کا بنیادی مقصد 15۔ 60 لمحات پر مشتمل مختلف نوعیت (جو کسی بھی لحاظ اور حجاب سے بالاتر ہوسکتی ہے ) کی تخلیقی ویڈیوز بنانا یا کسی دوسرے کی ویڈیو سے بلا اجازت آواز نقل کرکے اپنی ویڈیو پر منتقل کرلینا، فلٹرز کے ذریعے اپنی شکل بگاڑ کر مزاحیہ ویڈیوز بنانا وغیرہ شامل ہے۔ ایک ویڈیو کو جیسے ہی کوئی صارف یا ٹِک ٹاکر اپنی وال پر پر منتقل (اپلوڈ) کرتا ہے تو کچھ ہی لمحوں میں دوسرے صارفین کی جانب سے لائکس اور کمنٹس بارش کے قطروں کی مانند اس پر نچھاور ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو ٹک ٹاک کے علاہ دیگر سماجی رابطے کے نیٹ ورکس میں بھی اس کی مقبولیت کا ذریعہ بنتے ہیں۔
تاحال وقت کے ضیاع کے علاہ ٹاک ٹاک نامی اس ویڈیو ایپ کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔

پاکستان میں اس ایپ نے مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ یہ کئی لحاظ سے انسٹاگرام، فیسبک، وغیرہ سے زیادہ برائی کی ترغیب دینے والی، لغویات میں ڈبو دینے والی ایپ ہے۔ امیر سے امیر ترین اور غریب سے غریب ترین اس کے زیر سایہ اپنی ایک خیالی، دنیا بنائے ہوئے ہے۔ شہرت، خود پرستی اور خود پسندی کا نشہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جنس کی تمیز کیے بغیر فحاشی کے مظاہرے سامنے آتے ہیں۔
مزید برآں جنسی زیادتی جیسے سنجیدہ اور حساس موضوع کا مختلف انداز سے تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ کوئی اپنی اماں کو تفریح کے لیے ویڈیو میں شامل کرلیتا ہے تو کوئی اپنی بہن کو اور بھائی کو ویڈیوز کے ذریعے تنگ کرتا ہے۔ بکریاں چرانے والے، ٹک ٹاک کی شہزادیاں، ٹک ٹاک کے شہزادے، وغیرہ یہ مختلف الفاظ باقاعدہ اب مختلف پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے ٹک ٹاکرز کو ٹائٹل کے طور پر ایک اعزاز کی طرح دیے جاتے ہیں۔

مبالغے کی حد تک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ چند ایک عالم دین بھی اس ایپ کی چمک دمک سے مرعوب ہیں۔ (یہ الگ بات کہ وہ واقعتاً ہلکے پھلکے انداز میں ناصرف معاشرے میں کسی وباء کی صورت پھیلتی بے حیائی کی نشاندہی کررہے ہیں بلکہ مساوی بنیادوں پر لڑکے لڑکیوں کو اس سے بچنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔) مگر نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کے بیانات صرف اس لیے سنتے ہیں کہ ان کے مزاح سے بھرپور واعظ (آواز کو) مزید مزاحیہ انداز میں اپنی شکل پر ترتیب دے کر ویڈیو اپلوڈ کی جائے۔ اور ہزاروں پسندیدگیاں حاصل کی جائیں۔

اب تو عمر رسیدہ اور عام دکاندار حضرات بھی کسی حمیّت کے بغیر ٹک ٹاک پر شرارتیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور یہ وہ حضرات ہیں جو گھر میں بیٹھی اپنی والدہ، بہن یا بیوی کو پردے کی تلقین یوں کرتے ہیں جیسے آخرت میں ان کی اپنی نجات بھی عورت کے پردے کی مرہونِ منت ہے اور ان کا اپنا ہر عمل قابلِ معافی ہے۔

بھائی، بہن، بیوی پر کسے جانے والے قابلِ اعتراض فقرات کو مزح کی شکل دے کر funny videos بنانا معمول بن چکا ہے۔ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہوئی مقبولیت کی حامل اس ایپ میں نے ناصرف عام لوگوں کو اپنی لیپٹ میں لے رکھا ہے بلکہ ٹی وی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس کی زد میں آکر ذہنی پسماندگی کا شکار نظر آتے ہیں۔ فحاشی جھوٹ، فریب، گالم گلوچ جیسے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے جو اس نومولود ویڈیو ایپ کے ذریعے مزید بڑھ رہے ہیں اور جو کہنے کو تو بے ضرر ہیں لیکن بلاواسطہ طور پر ہر کوئی اس کی لپیٹ میں آرہا ہے جس کے منفی اثرات قابلِ غورو فکر ہیں۔

دورِ جدید میں پھیلتا ہوا یہ فتنہ ایک طرف تو والدین کی تربیت پر سوال اٹھاتا ہے تو دوسری جانب یہ بات بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے کہ قابلِ اعتراض لباس پہن کر لڑکیاں جب لڑکوں کو ڈوئیٹ duet کی دعوت دیتی ہیں تو #می ٹو موومنٹ اور جنسی ہراسگی جیسی اصطلاحات کی اہمیت کیونکر برقرار رہ سکے گی؟ بعض نوجوانوں نے مذہب کی چادر اوڑھ کر بے ہنگم ناچ شروع کررکھا ہے تو بعض لڑکیاں تبصروں اور پسندیدگیوں کے لالچ میں ایک دوسرے کو مات دیتی ہوئیں تمام اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھ رہی ہیں۔

تاہم احساسِ کمتری اور امیر غریبی کا تعصب یہاں بھی قائم ہے۔ غریب کی، جس کو ٹِک ٹاک کی دنیا میں چنگڑ کے لفظ سے جانا جاتا ہے، اچھائی یہاں اس کی تذلیل کا باعث بنتی ہے۔ اس کی خود اعتمادی کو للکارا جارہا ہے، جبکہ امیر کا گھٹیا پن بھی اس کا سٹائل ہے۔ ماسوائے چند ایک ٹک ٹاکرز کے جو واقعی اسے ایک تفریحی، سماجی رابطے کا ذریعہ سمجھ کر استعمال کررہے ہیں، باقی سب چھوٹے، بڑے، بوڑھے بنا رکے اس بہتی مگر گدلی گنگا سے ہاتھ دھونا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔

یہ امر انتہائی قابلِ غور ہے کہ جس ملک میں مہنگائی صحت اور تعلیم جیسے مسائل کسی آسیب کی طرح عام آدمی پر سوار ہوں وہاں ٹیکنالوجی کے نام پر اس قدر تیزی سے پھیلتی فحاشی کو کیونکر روکا جائے؟ نوجوان لڑکے لڑکیاں جن کی اولین ترجیح تعلیم کا حصول ہونا چاہیے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رنگ برنگ ویڈیوز بنانے میں اپنے انتہائی قیمتی وقت کو ضائع کرتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں ان کے گھر کے بڑے کہاں موجود ہوتے ہیں؟

مہنگائی کا رونا رونے والے یہی عوام جھوٹی اور سستی شہرت کے پیچھے جنونی ہونے والے اپنے بچوں کے خرچوں اور فیشن پر انہیں سمجھانے کی بجائے آنکھیں کیوں بند کرلیتے ہیں؟ تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ ٹیکس کو آسمانی بجلی سمجھنے والے یہ کاروباری حضرات، سر پر ٹوپی اور چہرے پہ داڑھی سجائے بے حیائی پہ توبہ کا راگ الاپنے والے مرد اپنی دکانوں پر بیٹھے بیٹھے اس فتنے کا شکار کیونکر ہوجاتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).