یہاں “سارتر” ہمیشہ اٹھائے جاتے رہیں گے


یادش بخیر: جدید جمہوریت کے اس دور میں ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے، جو طاقتور کے مقابلے میں ہمیشہ اپنے کمزور بیٹے کی فلاح، سلامتی، صحت، تعلیم جیسے بنیادی حقوق پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ جبکہ جمہوری تقاضوں سے نابلد تیسری دنیا کی ریاستیں اکثر سوتیلی ماں جیسی ہی نکلتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا وطن بھی اسی منطقے میں واقع ہے۔ وہ جو فیض نے فرمایا تھا۔

زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے،

آج مجھے اپنی ریاست کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ اس نے اپنے کوڑھ مغز ریاستی اداروں کے دوش پر ہمیں ہمارا کالم نگار واپس لوٹا دیا۔ معدوم ”نقش خیال“ کو پھر سے زیبائی و رعنائی عطا کر دی۔ عرفان صدیقی واپس کر دیا۔ اب ہم پھر کوثر و تسلیم سے دھلی اردو سے محظوظ ہوں گے۔

آج کے روزنامہ ”جنگ“ کے ادارتی صفحے پر اشاعت پذیر عرفان صدیقی کے ”نقش خیال“ کو طویل عرصے بعد دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوئی، ”قلم کو ہتھکڑی“ دراصل ہماری ریاست اور ریاستی اداروں کا قومی اور محبوب کھیل ہے جو وہ ہمیشہ سے کھیلتے آ رہے ہیں، نجانے ہم کب سمجھیں گے کہ جہاں بعض ادارے ”حساس“ ہو جائیں وہاں کے عوام ”بے حس“ ہو جاتے ہیں اور جہاں قلم و عقل کو اونگھ آ جائے وہاں عفریت جنم لیتے ہیں۔

برسبیل تذکرہ، فرانس کے سارتر گذشتہ صدی کے عظیم عوام پسند انقلابی فلسفی اور آزادی پسند مزاحمت کار تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں فرانس پر جرمنی کے قبضہ کے دوران سارتر مزاحمت پسند دانشوروں میں سرفہرست تھے، جب فرانس کی مقبوضہ کالونی الجزائر میں آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو سارتر نے فرانسیسی ہونے کے باوجود الجزائر کے آزادی پسندوں کی کھلم کھلا حمایت کی۔ فرانس کی سیاست کا دایاں بازو سارتر کی اسی انسان دوست سیاست کی وجہ سے ان سے سخت نالاں رہتا تھا۔ جب پیرس کی سڑکوں پر ”سارتر کو گولی مارو، سارتر کو جیل بھیجو“ کے نعرے لگ رہے تھے تو دائیں بازو کے چند سیاست دانوں نے فرانس کے صدر جنرل ڈیگال سے ملاقات کی کہ سارتر کو ”غداری“ کے جرم میں جیل بھیج دیا جائے، جس پر جنرل ڈیگال نے تاریخی الفاظ کہے کہ ”میں سارتر کو کیسے جیل بھیج سکتا ہوں؟ سارترتو خود فرانس ہے۔“

اے یاران سخن! اب ہم پاکستان میں جنرل ڈیگال کو کہاں سے لائیں۔ سو یہاں ”سارتر“ ہمیشہ اٹھائے جاتے رہیں گے اور قلم کو ہتھکڑی لگائی جاتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).