انڈیا کی جانب سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ: اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی معاہدات


انڈیا کشمیر جشن

انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کی طرف سے جہاں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد اب کشمیر کو انڈیا میں ضم کردیا گیا ہے تو وہیں کئی قانونی سوالات نے بھی جنم لے لیا ہے۔

پیر کو انڈیا کی پارلیمان نے مودی حکومت کی پیش کردہ ترمیم منظور کرتے ہوئے کشمیر کی ’نیم خود مختار‘ حیثیت ختم کی تو اس نے کشمیر اور پاکستان میں سیاسی ہلچل پیدا کردی۔ تاہم جموں اور کشمیر کی موجودہ قانونی حیثیت پر اب بھی سوالیہ نشان ہے۔

پاکستان اور انڈیا دونوں میں موجود اکثر آئینی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ مزید قانونی پیچیدگیاں اختیار کر لے گا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق خود مختاری کی جس شرط پر ہوا تھا وہ معاہدہ ہی تحلیل ہوگیا ہے، جس سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سنہ 1947 کی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

محبوبہ مفتی: ’پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے‘

’انڈیا نے بہت بڑی سیاسی حماقت کی ہے‘

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

’کشمیر اب بھی متنازعہ علاقہ‘

تقسیم کے فوراً بعد کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑی تو اقوام متحدہ نے ثالثی کرتے ہوئے سنہ 1948 میں تنارعہ کشمیر کے حل کے لئے دو قراردادیں منظور کیں جن میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اور یہ تجویز دی گئی کہ انھیں رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے۔ 

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے اپنی قرارداد میں پاکستان اور انڈیا دونوں سے اپنی اپنی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے جموں اور کشمیر کے متنازعہ علاقے کے الحاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔

حالیہ انڈین اقدام پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بین الا قوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے کہا کہ انٹرنیشنل لا میں تو کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہی ہے۔

’انڈیا نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا ہے کیونکہ ہر لحاظ سے آرٹیکل 370 ان سے وابسطہ ہے۔ یہ (کشمیر کی) وہ ترتیب تھی جو سیکورٹی کونسل نے تجویز کی۔ جب تک زمینی حقائق کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک (یہی) خاص حیثیت رہے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ: ’یہ علاقہ (اب بھی) انڈیا کا حصہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ یہ ترتیب اسی طرح چلتی آئی ہے اور اسے تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سیکورٹی کونسل یا اقوام متحدہ کے دائرہ کار میں مداخلت بھی کر رہے ہیں۔‘

انڈیا کے سینیئر وکیل ایم ایم انصاری اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ انڈیا نے سِرے سے کشمیری عوام کی خواہشات کا خیال ہی نہیں رکھا۔

ان کے مطابق انڈیا نے دو طرفہ بات چیت کے بجائے یک طرفہ ہی کشمیر کا مسئلہ کچھ ایسے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی کہ ’اس فیصلے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ خود کشمیری بھی دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتے‘۔

کشمیر انڈیا افواج

ایم ایم انصاری بھی احمر بلال صوفی کی بات سے متفق ہیں کہ کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے اور نئے اقدام سے اس کی حیثیت بین الاقوامی سطح پر تبدیل نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’خود انڈیا نے شملہ معاہدے میں یہ طے کیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے گا لیکن اب انڈیا اس پر تیار نظر نہیں آ رہا ہے۔ اب کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ نہیں رہے گا جس سے مزید کشمیری لوگوں میں بوکھلاہٹ پیدا ہو گئی۔

’کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا لیکن طویل مذاکرات کے بعد کشمیر نے انڈیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ معاہدے کے نتیجے میں ریاست کشمیر میں کچھ عرصہ جواہر لعل نہرو اور کچھ وقت فاروق عبداللہ وزیر اعظم رہے تھے۔‘

’دیگر ریاستوں کے برعکس، کشمیر کبھی انڈیا میں ضم ہی نہیں ہوا لیکن اب ہم 70 سال پیچھے چلے گئے ہیں۔‘

’آرٹیکل 370 رکاوٹ تھا‘

ایم ایم انصاری نے کہا ہے کہ وزیراعظم مودی کے اس فیصلے سے انڈیا اور کشمیر میں ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک کے ایجنڈے کی تشکیل ہوئی ہے جنھوں نے اپنے منشور میں بھی یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35- A کو ختم کردیں گے۔‘

احمر بلال صوفی کی رائے میں بی جے پی کے لیے آرٹیکل 370 ایک رکاوٹ تھا۔ ’بے جے پی اور آر ایس ایس کی خواہش ہی آئین سے متصادم رہی تو انھوں نے آئین کو ہی بدل ڈالا۔‘

ایم ایم انصاری کے مطابق اب دِقت یہ ہے کہ یہ آرٹیکل انڈیا اور کشمیر کی قیادت کی درمیان ایک لمبے عرصے کے مذاکرت کے بعد شامل کیا گیا تھا جس کے تحت خارجہ امور، دفاع اور کمیونیکیشن کے علاوہ کشمیر کی خود مختاری برقرار رہے گی۔

’اب یہ آرٹیکل ختم کرنے سے پہلے انڈیا کے اندر جمہوری عمل اختیار کیا گیا اور نہ ہی کشمیری رہنماؤں سے بشمول ان سیاسی رہنماؤں کے جو انڈیا کے ساتھ دیتے آئے ہیں مشاورت کی گئی ہے۔‘

پاکستان کشمیر

پاکستان کے پاس آپشنز کیا ہیں؟

احمر بلال صوفی کے مطابق اس فیصلے کے رد عمل میں پاکستان کے پاس کئی آپشن موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی توجہ دلانے کے علاوہ علاقائی کشیدگی اور ’ملٹری ڈپلائے منٹ‘ کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا خاص سیشن بلانے کی بات کر سکتا ہے۔ ’

’یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہے۔‘

ان کے مطابق ’ان خلاف ورزیوں پر سیکورٹی کونسل کا ہی مینڈیٹ ہے کہ اس پر مؤقف دے اور دونوں فریقوں کو بلا کر ان کا مؤقف سنے۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی دیکھے کہ اس معاملے کو آگے کیسے چلایا جائے گا۔‘

’سیکورٹی کونسل کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے مابین کشمیر کے مسئلے کی بات چیت کی رپورٹ سیکورٹی کونسل کو پیش کرے۔‘

احمر بلال کے مطابق دوسری آپشن یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے سامنے مؤقف دلائل کے ساتھ پیش کرے۔

’دنیا کو انڈیا کا مؤقف تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کو اپنا موقف اور دلائل دنیا بھر کے دارالحکومتوں کو پیش کرنے چاہئیں۔ کیونکہ برطانیہ، یورپی یونین، امریکہ، روس، چین اور دیگر ممالک کوئی بھی سیاسی پوزیشن لیتے وقت اپنے قانونی ماہرین سے مشورہ ضرور کرتے ہیں کہ اس میں کون سا فریق زیادہ حق بجانب ہے۔‘

ان کے مطابق اس طرح کسی ایک ملک کے حق میں (ممالک کی جانب سے) سیاسی پوزیشن لے لی جاتی ہے۔

احمر بلال سمجھتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے سامنے اپنا مؤقف منوا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر پر بین الاقوامی توجہ دلانے کے لیے ضروری ہے کہ ’پاکستان ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا مؤقف پیش کرے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp