بکنے والے اصل میں خچر ہیں



پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے انتخابات جب بھی قریب آتے ہیں تو ضمیر کی خرید وفروخت کا ایک شرمناک دھندا شروع ہوجاتا ہے۔ اس شرمناک دھندے یا کاروبار کے لئے ہمارے ہاں عموما ًہارس ٹریڈنگ یا گھوڑوں کی تجارت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں کروڑوں روپوں کے بدلے بکنے والوں کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح کا انتخاب جس نے بھی کیا ہے، غلط کیا ہے۔

کیونکہ گھوڑا ایک مُکرم جانورکا نام ہے۔ میدان جنگ میں جتنی وفا ایک گھوڑا اپنے جنگجو مالک کے ساتھ نبھاتا ہے شاید کسی اور جانور نے نبھائی ہو۔ یزیدی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ِ کربلا حضرت امام حسین کی سواری بھی ایک گھوڑا تھا جس کانام ذوالجناح تھا۔ ذوالجناح نے کربلا کے میدان میں حضرت امام کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور انتہائی زخمی ہونے کے باوجود بھی اس نے امام کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس باکمال جانور کو ہماری شریعت میں بھی نہایت اعلی مقام حاصل ہے کیونکہ یہ زینت کے ساتھ ساتھ آلہ جہاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اکرام کی وجہ سے اس کا گوشت بھی مکروہ ہے، علیٰ ہٰذا القیاس۔

ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح پر ہمارے بعض لکھاریوں نے بھی کلام کیا تھا کہ گھوڑے جیسے شریف اور وفادارجانور کو مفت میں بدنام نہ کیاجائے۔ ان دانشوروں نے اس بارے میں تجویز دی تھی کہ سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر بکنے والوں کو گدھے کہنا چاہیے کیوں گدھا ایک احمق جانور ہے اور بکنے والے بھی اپنی حماقت کی وجہ سے بکتے ہیں۔

لیکن میرے نزدیک بکنے والے اس طائفے کے افراد کو گدھے کہنا بھی مناسب نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گدھا بے شک بیوقوف جانور ہے لیکن اس جانور کی پھر بھی ایک خاص حیثیت ہوتی ہے۔ گدھا اس قدر مستقل مزاج ہے کہ جب وہ کسی جگہ پر ڈٹ جانے کی ٹھان لے تو پوری دنیاکے لوگ اگر اس کو چابک مارنے لگ جائیں تب بھی ”زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد“ کے مصداق یہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ اسی طرح گدھے کے بارے میں ہرکسی کو یہ علم ہوتا ہے ”کہ گدھا بس گدھا ہے اور اس کی حماقت میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔“ سینیٹ کے چناؤ یا اس ایوان کے کسی چیئرمین کے بچاؤ کے موقع پر جو حضرات کروڑوں روپے کے عوض بکتے ہیں ان کے لیے ”خچر“ کا لفظ استعمال کرنا میرے مطابق نہایت موزوں ہے۔ اسی طرح بکنے کے اس عمل کو ہارس یا ڈنکی ٹریڈنگ کی بجائے ”میول ٹریڈنگ (Mule trading) کی اصطلاح بروئے کار لانازیادہ مناسب ہوگا۔

یہ اس لیے کہ جانوروں میں خچر وہ واحد جانور ہے جو مخلوط النسل ہونے کی وجہ سے نہ تو مکمل گھوڑا ہوتا ہے نہ ہی اس پر حقیقی گدھے کا اطلاق ہوتاہے۔

سینیٹ کے انتخابات یا بعض اوقات چیئرمین کے بچاؤ کے موقع پر اپنے ضمیروں کی تجارت کرنے والے لوگ بھی دو اطراف کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بکنے والے ان لوگوں کے بارے میں ہم اگر غور کریں تو یہ لوگ بظاہر مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے بندے ہوتے ہیں لیکن وقت آنے اور پیسہ ملنے کے لالچ میں یہ درون خانہ اپنی وفاداری پاکستان تحریک انصاف یا کسی دوسری جماعت کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ اسے گھوڑے کی نسل سے تصور کریں گے لیکن یہ کسی بھی وقت خچر ثابت ہوسکتے ہیں۔ یا پھر آپ نے انہیں خچر سمجھا ہوگا لیکن کم بولی آنے کے وقت یہ بکنے سے رہ کر اپنے آپ کو واپس گھوڑے ثابت کردیں گے۔ آئندہ انتخابات میں آپ نے حسن ظن کی خاطر اسے گھوڑا تصور کیا ہوگا لیکن اعظم سواتی یا جہانگیرترین جیسے ارب پتی لوگوں کی گرم بولی کی بھینٹ چڑھ کر یہ دوبارہ اپنے آپ کو خچر ثابت کرلے گا، وغیرہ وغیرہ۔ چند دن پہلے سینیٹ میں چیئرمین صادق سنجرانی پر اپوزیشن جماعتوں کے عدم اعتماد کے موقع پر پوری قوم پر ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ بکنے والے یہ چودہ ارکان گھوڑے اور گدھے نہیں تھے بلکہ تجربے سے ثابت ہوا کہ یہ ایک تیسری نسل ( یعنی خچروں کی نسل) سے تعلق رکھتے تھے۔ اس مختصر سی تحریر کے ذریعے میری پوری قوم سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس قبیح دھندے کی سزا گھوڑے جیسے شریف النفس اور گدھے جیسے مستقل مزاج جانور کو دینا سراسر زیادتی ہے۔ لہٰذا اپنے ضمیروں کی تجارت کرنے والے ان لوگوں کو آئندہ خچر اور اس نوع کی تجارت کو میول ٹریڈنگ کہنا موزوں ترین اصطلاح ہے، وما علینا الا البلاغ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).