مزاح کے بادشاہ کرنل محمد خان کی نگری سے ایک فریاد


یہ ہمارے ڈیرے کے سامنے کا منظر ہے۔ اگست کی چلچلاتی دھوپ میں کھڑے درختوں سے آگے، سڑک کے اُس پار ان لوگوں کا جہان آباد ہے، جنہیں زمین کھا گئی۔ ایک قبر کے کتبے پر لکھا ہے ”کرنل محمد خان، مصنف “ …. ہم نے چکوال کے اسی دیہی علاقے میں آنکھ کھولی ہے اور آج بھی یہیں سانس لے رہے ہیں۔

کرنل محمد خان علم، تجربے اور مزاح نگاری میں ہم سے کئی نوری سال بلند تھے۔ البتہ ان کے اور ہمارے بچپن کے ادوار کی پسماندگی میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان کی کتاب میں مرقوم ہے کہ انہوں نے صاحبزادے کو تقسیم ہند سے قبل کے اپنے زمانہ طالب علمی کا قصہ سنایا کہ جب اسکول ماسٹر صاحب ان کے ہاں مہمان ہوئے تو احتراماً رنگیلے پائیوں والا پلنگ بچھایا گیا۔ صاحبزادے نے والد گرامی سے پوچھا کہ آپ لوگوں میں اتنی عقل نہیں تھی کہ ماسٹر صاحب کو کرسی پیش کرتے؟ جواب میں کرنل صاحب نے تاریخی جملہ کہا کہ سلیم میاں! عقل تو تھی مگر کرسی نہیں تھی۔

70ء کی دہائی میں، اسی پسماندہ نگری میں جب ہمارا طالب علمی کا دور شروع ہوا تو کرنل محمد خان مزاح نگاری کے آسمان پر جگمگا رہے تھے۔ تاہم کرسی ہمارے گھر بھی نہیں تھی۔ کرسی تو کیا، ڈھنگ کا پلنگ بھی نہیں تھا۔ ڈرائنگ روم تو کجا، گھر میں پختہ کمرہ بھی نہیں تھا۔ ہمیں ریفریجریٹر، کپ بورڈ اور ڈریسنگ ٹیبل میسر نہیں تھے۔ ہمارے گاﺅں میں ڈائننگ ٹیبل بھی نہیں تھے، ہم زمین پر بیٹھ کر مٹی کے برتنوں میں کھانا کھاتے تھے اور کورے گھڑے کا پانی پیتے تھے۔ بجلی اور اس سے وابستہ کسی سہولت کا ہماری زندگیوں میں کوئی دخل نہیں تھا۔ رات دیئے یا لالٹین کی مدھم لَو میں چرخے کی مدھر آواز سنتے ہماری آنکھ لگتی اور سحری کے وقت گھر کی چکی کی پُر سوز صدا سے کھلتی تھی، مگر ہم خوش تھے۔

آپ سے کیا چھپانا، ہم بارانی اور پہاڑی اَن پڑھ، ان گھڑ، اجڈ، دنیا سے نا آشنا اور سائنس و ٹیکنالوجی سے بے بہرہ، اپنے گاﺅں کے کنوئیں ہی کو کل کائنات سمجھتے تھے۔ ہمارے لیے یہی جھوک رانجھن کی، یہی ہیر کا ڈیرہ تھا۔ ہم گڑ کی چائے میں کیک رس ڈبو کر کھانے کو دنیا کی سب سے بڑی عیاشی کہتے تھے۔ شکر دوپہروں میں کھیت کے کنارے بیری کی گھنی چھاﺅں میں روٹی، اچاراور لسی پر مشتمل کھانا تناول کرتے اسے پر تکلف لنچ خیال کرتے تھے۔ ہم اپنی تیز دھار درانتیوں کو سب سے موثر ہتھیار سمجھتے تھے۔ اپنی ہل، پنجالی اور سہاگہ کو جدید زرعی مشینری گردانتے تھے۔ مغرب کے وقت گھر گھر تندوروں سے اٹھنے والے دھوئیں کی خوشبو ہمیں مسحور کن لگتی تھی۔ ڈوبتے سورج کے سمے چراگاہوں سے واپس آتے ریوڑوں کی گھنٹیوں کی آوازیں ہمیں مست کیے دیتی تھیں۔ بخدا ہمیں کچھ خبر نہیں تھی کہ دنیا میں کرپشن اور فحاشی یا انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے معاشرتی ناسور بھی ہوتے ہیں اور مردان جری انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ ہمیں دنیا کی ہوا بھی نہیں لگی تھی، مگر ہم خوش تھے۔

ہم سادہ دلوں کی زندگی فقط گاﺅں کے سادہ لوح مولوی کے افکار کے گرد گھومتی تھی۔ وہی ہمارا دینی رہنما تھا، وہی دنیاوی مسائل کی گھتیاں سلجھانے والا، وہی طبیب اور وہی نصیب۔ آپ اس کی کم علمی سمجھیں یا سادگی مگر اس نے کبھی ہمیں فرقہ واریت اور مذہب کے نام پر دنگا فساد کی طرف راغب نہیں کیا۔ ہمارا مولوی کوئی عالم بے بدل یا مقررشعلہ بیان نہیں تھا۔ شاید اسی لیے کافر گری کے میدان میں اپنی گراںقدر خدمات سر انجام نہیں دے سکا۔ خدا جانے اس نے کہاں سے سیکھا تھا مگر اس کا علم رواداری اور امن و آشتی تک محدود تھا۔ ہم اس کے افکارِ سادہ کی روشنی میں چاند پر انسانی قدم پڑنا ناممکن سمجھتے تھے۔ البتہ چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا اور زمین کو اپنے سینگ پر اٹھانے والے بیل پر ہمارا یقین پختہ تھا۔ تب یہاں عقل و دانش کا سیلاب نہیں آیا تھا مگر ہم خوش تھے۔

پھر وقت نے پلٹا کھایا اور روشنی نے ہمارے گاﺅں کا رستہ دیکھ لیا۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب ہمیں کرسیاں تو کیا، جدید ٹرانسپورٹ، انٹر نیٹ، سمارٹ فون، وٹس ایپ، کیبل، ڈش اور زراعت کی جدید ترین مشینری تک میسر ہے۔ ہمارا رابطہ ساری دنیا سے ہے۔ اب ہم ان پڑھ اور ان گھڑ نہیں رہے۔ ہمارے پاس علم ہے، اپنی اپنی مساجد ہیں، اپنے اپنے فرقے ہیں، اپنی اپنی جماعتیں ہیں، اپنے اپنے مذہبی اورسیاسی رہنما ہیں، اپنے اپنے حصے کے غدار اور کافر ہیں، اپنے اپنے مشن ہیں۔ اب ہمیں ہر سہولت میسر ہے، مگر ہم خوش نہیں ہیں۔ واللہ ہم خوش نہیں۔

ہم جدید دور کی فہم و دانش اور علم و عمل سے خوفزدہ ہیں۔ ہم ترقی کے اس سفر کی رائیگانی پر پشیمان اورپریشان ہیں۔ ہم لاعلمی میں خوش تھے۔ ان فرقہ وارانہ جھگڑوں، سیاسی دنگلوں، پولیس مقابلوں، بم دھماکوں اور انسانی اجسام جلنے کی بُو نے ہماری سانسوں میں چنگاریاں بھر دی ہیں۔ ہم سسی کی مانند مظلوم ہیں، جو امن کی ڈاچی کے نقوش پا پر بھاگ بھاگ کر بگولا ہو گئے ہیں۔ اب ہم سے اپنے بچوں کے گولیوں سے چھلنی سینے نہیں دیکھے جاتے۔ ہم سے اپنے پیاروں کے مزید لاشے نہیں اٹھائے جاتے۔ ہم میں ہر روز میڈیا پر خاک و خون میں لتھڑے ہم وطنوں کے جسموں کے ٹکڑے دیکھنے کی ہمت نہیں۔ ہم میں بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کے خوفزدہ چہرے دیکھنے کی تاب نہیں۔ ہم گھروں سے نکلتے ہیں تو سلامتی کی دُعا کے لیے ماﺅں کے کپکپاتے ہونٹ دیکھ کر لرز جاتے ہیں۔ خدا شاہد ہے کہ ہم خوش نہیں ہیں۔

آپ اسے ہمارا پینڈو پن کہیں یا شعورو آگہی سے دشمنی، مگر ہم اپنے اسی جہالت کے دور میں واپس پلٹنا چاہتے ہیں۔ اب ہماری بستیوں پر کھیڑوں کا راج ہے۔ ہم نے یہاں نہیں رہنا۔ ہم نے جھوک رانجھن کی جانا ہے، کرنل محمد خان کی اسی نگری میں جا بسناہے، جہاں بارود کی بُو نہیں، تندوروں سے اٹھنے والے دھوئیں کی مہک ہے۔ جہاں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ نہیں، ریوڑوں کی گھنٹیوں کی مسحور کن آوازیں ہیں۔ جہاں لاﺅڈ سپیکر کا بے ہنگم شور نہیں، چرخے کی دلفریب موسیقی ہے۔ جہاں دشنہ وجنجر کی زباں بولتے ٹاک شوز اور سوشل میڈیا نہیں، باہمی محبتوں کی صداﺅں والی چوپالیں اور کچے گھروندے ہیں۔ جہاں کوئی دہشت گرد ہے نہ اس کی کمر توڑنے والا۔ جہاں کوئی انصاف کو ہماری دہلیز تک پہنچانے والا ہے، نہ دن رات ہمارے مسائل پر کڑھنے والے ہمدرد۔ جہاں کوئی قائداعظم ثانی ہے، نہ خادم اعلیٰ۔ جہاں کوئی ملکی وسائل لوٹنے والاہے، نہ انہیں عبرت کا نشان بنانے والا۔ جہاں کوئی مقرر شعلہ بیان، کوئی خطیب بے بدل، کوئی ولولہ انگیز قیادت، کوئی تبدیلی کا دعویدار، کوئی ہمارا معیار زندگی بلند کرنے والا، کوئی زو فہم دانشور نہیں رہتا۔

بے شک کوئی ہم سے ساری جدید سہولتیں لے لے، ہم سے ہماری کرسیاں بھی لے لے مگر ہمیں کھیڑوں سے نجات دلا دے ….ہے کوئی ہماری فریاد سننے والا ؟….ہم شاہ حسین کی طرح چاک گریباں ہیں ….” جھوک رانجھن دی جانڑاں، نال میرے کوئی چلے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).