قومی اسمبلی کا اجلاس: ’دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا‘


احتجاجی ریلی

انڈین پارلیمنٹ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا بل پیش کیا گیا جس پر وہاں کی کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ انڈیا میں حزب مخالف کی متعدد جماعتوں نے بھی اس بل پر اعتراض اُٹھایا اور اس کو ایوان میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا۔

پاکستان میں بھی اس بارے میں شدید ردعمل دییکھنے کو ملا۔ ملک کے متعدد شہروں میں بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور بھپری ہوئی عوام نے اس اقدام سے متعلق انڈیا کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

حکومتی سطح پر بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی انڈین حکومت کی کوششوں کو مسترد کیا گیا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے بھی اس پیشرفت کے بعد سکیورٹی کا جائزہ لینے کے لیے منگل کے روز کورکمانڈر کانفرنس طلب کرلی ہے۔

حزب مخالف کی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے بھی بھارت کے اس اقدام کی ایک دوسرے سے بڑھ کر مذمت کی گئی۔

حکومت، حزب مخالف کی جماعتوں اور عوام کے اس پرجوش ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ پیر کے روز ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بڑا ہنگامہ خیز ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

محبوبہ مفتی:’پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے‘

کشمیر: اقوام متحدہ کی قرارداوں کی حیثیت کیا ہے؟

سیاحوں، زائرین کو کشمیر سے نکلنے کا مشورہ

قومی اسمبلی میں پوچھے جانے والے سوال و جواب اور معمول کی کارروائی معطل کردی جائے گی اور دونوں اطراف کے اراکین قومی اسمبلی ایک دوسرے سے بڑھ کر انڈین حکومت کے اس اقدام کی نہ صرف بھرپور مخالفت کریں گے بلکہ اس پر عالمی برادری کا ضمیر جھنجورنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

پارلیمنٹ

فائل فوٹو

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی میں یہ سوچ کر پارلیمنٹ ہاوس چلا گیا کہ قومی اسمبلی کا ایوان اراکین سے بھرا ہوا ہوگا۔ وزیر اعظم جو کہ قائد ایوان بھی ہیں، حزب مخالف کی جماعتوں کو چور ڈاکو کہنے کی بجائے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اپنی سیٹ پر براجماں ہوں گے۔ اسی طرح قائد حزب اختلاف بھی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی نشست سنبھالیں گے۔

پریس گیلری میں بھی رش ہوگا اور شائد وہاں بیٹھنے کی بھی جگہ نہ ملے۔ پریس گیلری میں پہنچنے کے بعد وہ نقشہ جو میں نے اپنے زہن میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق تیار کیا تھا ان میں سے ایک بھی چیز وہاں پر موجود نہیں تھی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس مقامی وقت کے مطابق شام کے چار بجے شروع ہونا تھا لیکن پانچ بجے تک ایوان میں اراکین قومی اسمبلی کی تعداد ایک درجن سے زائد نہیں تھی۔ ایوان سے زیادہ لوگ پریس گیلری میں موجود تھے۔

پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کچھ دیر کے لیے ایوان میں موجود رہے اور پھر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے عملے کے اراکین سے گفتگو کرنے کے بعد ’یہ جا اور وہ جا‘ کے مصداق ایوان سے چلتے بنے۔

ایوان میں اراکین کی رونق اس وقت بڑھی جب وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اجلاس میں آئے تو حکمران اتحاد کے اراکین نے اُنھیں گھیر لیا اور بعض ’اہم معاملات‘ پر گفتگو کرتے رہے۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کا اجلاس بھی پارلیمنٹ ہاوس میں ہو رہا تھا لیکن وہاں سے بھی کوئی رکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں آیا۔

سینئر صحافی ایم بی سومرو کے مطابق اراکین پارلیمنٹ شاید اس وجہ سے بھی کم آئے ہیں کیونکہ صدر مملکت نے کشمیر کے معاملے پر منگل کے روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر رکھا ہے۔

پارلیمنٹ

فائل فوٹو

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین تو ایک طرف وہ تین آسیر اراکین قومی اسمبلی نے بھی ایوان میں آنا مناسب نہیں سمجھا جن کے پروڈکشن آرڈر سپیکر قومی اسمبلی نے جاری کیے تھے۔

سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس وقت پارلیمنٹ ہاوس پہنچے جب قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے اجلاس 8 اگست تک ملتوی کردیا تھا۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جو کہ اس وقت نیب کی تحویل میں ہیں، کے پاس نیب کے اہلکار جب سپیکر کے پروڈکشن آرڈر لیکر گئے تو اُنھوں نے یہ کہہ کر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے معذوری ظاہر کردی کہ چونکہ وہ اس وقت نیب کی تحویل میں ہیں اور نیب کی ایک ٹیم ان سے تفتیش کر رہی ہے اس لیے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے۔

تاہم منگل کے روز ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں وہ شریک ہوں گے یا نہیں اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

واضح رہے کہ آصف علی زرداری اور شاہد خاقان عباسی سے اسلام آباد میں واقع نیب کے ایک ہی دفتر میں تفتیش کی جارہی ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے آتے ہی چند سطریں پڑھیں جس میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے سے متعلق انڈین حکومت کے اقدام کی مذمت کی۔

ڈپٹی سپیکر نے جب اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو وہاں پر موجود اراکین لابی کی طرف ایسے تیزی سے لپکے جیسے بچے سکول میں چھٹی ہونے کے بعد گھروں کو جانے کے لیے بھاگتے ہیں۔

پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک نئی چیز دیکھنے کو ملی وہ ایوان میں غباروں کی مدد سے بنایا گیا پاکستان کا جھنڈا تھا۔ خواتین ارکان اسمبلی اس جھنڈے کے سامنے کھڑے ہو کر تصاویر بنواتی رہیں۔

پارلیمنٹ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے انھوں نے اس قسم کا جھنڈا ایوان میں نہیں دیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp