آرٹیکل 370: انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بارے میں کشمیری کیا سوچتے ہیں؟


کشمیر

‘معشیت تبھی چلتی ہے جب امن ہوگا، آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر میں امن نہیں آ رہا’

انڈیا میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔

اس صورتحال میں ایک کشمیری اس آئینی ترمیم کے بارے میں کیا سوچتا ہے، آئین کی شق 370 کے خاتمے سے وہ کیسے متاثر ہوں گے، ان کی شناخت اور معاشی حالت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بی بی سی نے یہ جاننے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے چند کشمیریوں سے بات کر کے ان کی آرا لی۔


اعجاز احمد: ’آج بڑے خاندان بھی وہی بول رہے ہیں جو علیحدگی پسندوں کا موقف تھا‘

35 سالہ اعجاز کا تعلق سرینگر سے ہے اور وہ پچھلے دو سال سے انڈیا کے شہر ممبئی میں مقیم ہیں۔

پہلی چیز ہوتی ہے ’قبول کرنا‘، وہ ہی نہیں ہے۔ کشمیری یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ درست ہے۔

کشمیری اسے نہیں مانتے۔

اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب ختم ہو گیا ہے۔ یہ ایک ’آرٹیکل آف فیتھ‘ تھا۔

انڈیا کے ساتھ الحاق کچھ شرطوں پر ہوا تھا اور اس میں ہمارا خاص درجہ ایک بہت بڑی اور اہم چیز تھی۔

اب اگر وہ خاص درجہ ختم کر دیا جاتا ہے تو انڈیا کے ساتھ الحاق میں ہمارا جو ’آرٹیکل آف فیتھ‘ تھا، اس پر سوال اٹھنے شروع ہو جائیں گے اور اس پر جو ردِعمل مظاہروں کی صورت میں ہوگا وہ سبھی سٹیک ہولڈرز کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

محبوبہ مفتی:’پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے‘

انڈیا کا کشمیر کی ’نیم خودمختار‘ حیثیت ختم کرنے کا اعلان

جو دو خاندان (عبداللہ اور مفتی خاندان) پچھلے 70 سال سے انڈیا کا ایجنڈا لے کر کشمیر میں انڈیا کے نمائندے تھے، دیکھیں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے۔

آج وہ بھی وہی بول رہے ہیں جو ایک علیحدگی پسند کا موقف رہا ہے۔ اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ جو لوگ جموں اور کشمیر میں انڈیا کے موقف کے حمایتی تھے وہ لوگ اب کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔

سرینگر میں ایک بند پٹرول سٹیشن

’میں نہیں مانتا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی معیشت میں کوئی بہتری آئے گی‘

آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ کیا اس سے کشمیریوں کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے؟

آپ اسی بات سے اندازہ کر لیں کہ انڈیا نے اس ترمیم کے اطلاق کے لیے کیسے اقدامات کیے ہیں، کتنے فوجی کشمیر میں لے آیا ہے، کرفیو لگا دیا ہے، انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، مواصلات کے تمام ذرائع بند ہیں۔

ان سب اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے لوگ اس کے خلاف تھے اور خلاف ہیں۔ آپ کوئی ردِعمل، کچھ نہیں دیکھ پا رہے، لیکن یہ سب پابندیاں اور کرفیو ہٹے گا تو اس کا ردِعمل سامنے آئے گا، اور مجھے تو اس کا ردِعمل بڑا پرتشدد لگ رہا ہے۔

میں نہیں مانتا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی معیشت میں کوئی بہتری آئے گی۔

معشیت تبھی چلتی ہے جب امن ہوگا، آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر میں امن آ نہیں رہا بلکہ بہت عرصے کے لیے امن قائم ہی نہیں ہو سکے گا۔

آپ معیشت کے کسی بھی ماہر کی رائے لے لیں، وہ آپ کو یہی بتائیں گے کہ معیشت کی بہتری کے لیے سب سے اہم چیز ہوتی ہے ’سیاسی استحکام ‘ اور جب آپ کی ریاست سیاسی طور پر ہی غیر مستحکم ہو جائے تو باقی جتنے شعبے ہیں ان میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟

سیاحت پر اثر پڑنے والا ہے، کشمیریوں کی تعلیم اور کاروبار پر کافی اثر پڑنے والا ہے، یہ کہنا ہے اس آرٹیکل کے خاتمے سے آپ کی معیشت بہتر ہو جائے گی ایک دھوکا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ جو چیز ہو رہی ہے اس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں چاہے وہ معاشی حالات ہوں یا سیاسی۔

لیک

ڈل جھیل پر سیاح نہ ہونے کے باعث یہ کشمیری ملاح مچھلیاں پکڑ رہا ہے

شہلا رشید: ’میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہی ہوں‘

سری نگر سے تعلق رکھنے والی شہلا رشید دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

اس آرٹیکل کے خاتمے سے کشمیری سب سے زیادہ ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ ’جس طرح سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے کشمیریوں کے سیاسی احساسات کو بہت تکلیف پہنچائی گئی ہے۔

اس آرٹیکل کا خاتمہ شناخت کے مسائل تو پیدا کرے گا ہی، کیونکہ جموں اور کشمیر ایک ریاست تھی جس میں جموں و کشمیر اور لداخ جو تینوں علاقے ہیں ان میں الگ الگ مذہب کے لوگ شامل ہیں۔

ہم اس کلچر کے ساتھ پلے بڑھے ہیں اور اب یہ جو قدم اٹھایا گیا ہے ریاست کو تقسیم کرنے والا، یہ نا صرف دو قومی نظریے کو فروغ دیتا ہے بلکہ یہ ایک بہت بڑا ثقافتی دھچکا ہے۔

اس طرح کے اقدامات سے کشمیر کے مسئلے کو اور زیادہ پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر کسی کو ہسپتال جانا ہے تو انھیں بھی مشکلات کا سامنا ہے، کسی کو کچھ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے، کشمیریوں کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔

ایسے اقدامات انڈین حکومت میں اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ان کو اتنا اعتماد ہوتا تو وہ جموں اور کشمیر میں الیکشن کرواتے، وہ اسمبلی میں اس پر بحث کرتے اور دیکھ لیتے کہ اسمبلی میں یہ پاس ہوتا کہ نہیں۔

اس طرح اسے پچھلے دروازے سے لا کر، فوج لا کر، کمیبونیکیشن بند کر کے جو کیا جا رہا ہے وہ یہ دکھاتا ہے کہ مرکزی حکومت کو پتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں۔

جس طریقے سے فیصلہ لیا گیا ہے وہ کافی غلط ہے۔ میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہی ہوں اور مجھے امید ہے سپریم کورٹ اس آرٹیکل کے خاتمے کے فیصلے کو غلط قرار دے گی اور ہمیں انصاف ملے گا۔

nqso


محمد راحیل: ’وہ اپنی ثقافت ساتھ لائیں گے اور ہماری ثقافت کو خراب کریں گے‘

راحیل (فرضی نام) کا تعلق پلوامہ سے ہے اور آج کل وہ انڈیا کے شہر بنگلور میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مقیم ہیں۔

میں اس وقت انتہائی پریشانی کے عالم میں ہوں کیونکہ میری والدہ شدید بیمار ہیں اور ان کے آبائی علاقے میں مواصلاتی نظام بند ہونے کے باعث میں ان سے رابطہ نہیں کر پا رہا۔

پہلے ہمیں ہمارے سپیشل کوٹا کے حساب سے روزگار ملتا تھا، ہم اپنی ثقافت کو محفوظ رکھ رہے تھے، ہماری ریاست میں پولیس کشمیری تھی، کشمیر میں جو سرکاری محکمے ہیں ان میں ہماری ریاست کے لوگ بھرتی تھے۔

لیکن آرٹیکل 370 ختم ہونے کی صورت میں پورے انڈیا کی مختلف ریاستوں سے لوگ یہاں کام کرنے آ سکتے ہیں، پولیس اور دوسرے محکموں میں بھرتی ہو سکتے ہیں، ان کی زبان ہی الگ ہو گی، بھانت بھانت کی زبانیں بولنے والے لوگ یہاں آ جائیں گے۔

پہلے بھی کشمیریوں پر مظالم کیے جا رہے ہیں لیکن کم از کم کشمیری ایک پولیس افسر کے ساتھ اپنی زبان میں بات تو کر سکتے تھے، اب حال یہ ہوگا کہ ہمارے لوگوں کو جن کو ان کی زبان نہیں آتی، وہ ان سے بات کیسے کریں گے؟

کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں ہیں اسی لیے انڈین حکومت انھیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔

ابھی ہمارے پاس جتنے بھی کالج اور تعلیمی ادارے وغیرہ ہیں وہاں صرف کشمیر کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں لیکن اس آئینی ترمیم کے بعد وہاں باہر سے پڑھنے والے بچے آجائیں گے جو اپنی ثقافت ساتھ لائیں گے اور ہماری ثقافت کو خراب کریں گے۔

سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انڈیا کی دوسری ریاستوں سے لوگ آکر کشمیر میں شہریت حاصل کر سکیں گے اور یہ باہر سے آنے والے کشمیر میں رہ کر اپنی آبادی بڑھائیں گے۔

کشمیر میں سیکورٹی فورسز

’جب آپ کی ریاست سیاسی طور پر ہی غیر مستحکم ہو جائے تو باقی جتنے شعبے ہیں ان میں انویسمنٹ کیسے آئے گی؟’

اب انڈیا کے صنعت کار آکر کشمیر کو خریدیں گے، وہ آکر حکومت کے ساتھ سودے کریں گے، ہمارے جنگلات اور دوسرے وسائل خرید کر انھیں ختم کر دیں گے۔ حکومتی اقدامات ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا ہے۔

ایک عام کشمیری آج یہ سوچ رہا ہے کہ غیر جمہوری طریقے اپنا کر ہمارے آئین کو ختم کیا گیا ہے، ہمارا جب قانون بنانے کا حق ہی ختم کر دیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ خطرناک کیا ہو سکتا ہے۔


مزمل قادر: ’کشمیر کا مسئلہ ڈیولپمنٹ کا نہیں ہے، ہم آج بھی باقی ریاستوں سے بہتر ہیں‘

مزمل دبئی میں سیلز پروفیشنل ہیں۔ 18 اگست کو مزمل کی شادی ہونے والی تھی تھی جو انھیں اب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

رشتے دار تو کیا مجھے نہیں لگتا اب میں خود بھی کشمیر جا سکوں گا، وہاں جاکر پانچ چھ مہینے بند رہنا ہے تو جانے کی کیا ضرورت ہے۔

انڈیا میں ہمارا جو ایک انفرادی تشخص تھا، اسے ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ جس تعلق کی بنیاد پر ہم 1947 سے انڈیا کے ساتھ جڑے تھے وہ ختم کر دیا گیا ہے، اب یہ توڑے گئے وعدوں کی داستان ہے۔

اس سے ہماری کوئی مدد نہیں ہونے والی۔ یہ جو ریفارمز کہہ رہے ہیں کہ اس سے بڑی کمپنیاں وہاں آکر انویسٹ کریں گی، ہمیں وہاں انویسمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا کشمیر کا مسئلہ ڈویلپمنٹ کا نہیں ہے، ہم آج بھی انڈیا کی باقی ریاستوں سے بہتر ہیں۔

کشمیر

کشمیریوں کو معاشی ترقی کا جھانسا دیا جا رہا ہے، اچھے تو نہیں لیکن حقیقت میں ہماری معیشت پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے پہلی اثر تو یہ ہے کہ ابھی کسی کو نہیں پتا کتنا عرصہ کشمیر میں حالات کشیدہ رہیں گے، چھ مہینے، سال یا دو سال۔ وہاں کے لوگ اپنے کاروبار، سکول، سرکاری ملازمتیں، یا کوئی بھی کاروبار کرنے والا کب واپس اپنی دکان کھول سکے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔

ہماری سب سے بڑی صنعت سیاحت ہے، ہمارے کشمیر سے سب سے بہترین زعفران، ہاتھ سے بنی اشیا، قالینیں، پھل باہر بھیجے جاتے ہیں، اگر حالات ہی ٹھیک نہیں رہیں گے تو یہ سب کیسے چلے گا، کشمیر میں کون آئے گا۔

اس سے انڈیا کے کاروباری لوگوں کے لیے ایک موقع مل جائے گا، وہ ہمارے فائدے کے بارے میں نہیں سوچیں گے، یہ ایک طرح سے ان کے لیے خودغرض قسم کا موقع ہو گا جس سے وہ پورا فائدہ اٹھائیں گے۔


حازق قادری:

حازق کا تعلق سرینگر سے ہے لیکن وہ آج کل دہلی میں مقیم ہیں اور جب سے انڈین حکومت نے وادی میں ذرائع مواصلات کو بند کیا ہے، ان کا اپنے خاندان سے رابطہ نہیں ہو پایا۔

یہ فیصلہ ہر ایک کشمیری کے خلاف ہے۔

ایک کشمیری کے طور پر مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ میرے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے پورے کشمیر کو بند کرکے یہ قدم اٹھایا ہے کیونکہ انھیں پتا تھا کہ کشمیریوں کو یہ قبول نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ظلم ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

کشمیری ہمیشہ سے بولتے آرہے ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے، کشمیر کبھی انڈیا کا حصہ نہیں تھا اور ہمارے کچھ اپنے قوانین تھے جو ہمیں دوسری انڈین ریاستوں سے منفرد بناتے تھے۔ ہمارا انڈیا سے الحاق کچھ شرطوں پر ہوا تھا جسے انھوں نے ختم کر دیا۔

انھوں نے سیاحوں اور یاتریوں کو پچھلے چند دن کے اندر کشمیر سے نکال کر ہماری معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اگر وہ اتنے ہی خیر خواہ ہیں تو جس موسم میں سیاح سب سے زیادہ کشمیر کا رخ کرتے ہیں وہ ایسا خوف و دہشت کا ماحول نہ بناتے۔ آگے آنے والے دنوں میں کشیدگی بڑھے گی اور کوئی کشمیر نہیں آسکے گا تو ہماری معیشت کو کیسے فائدہ ہوگا۔

انڈین حکومت جموں کشمیر کو بھی ویسا ہی بنانا چاہتی ہے جیسے اسرائیل نے فلسطین کو بنا دیا ہے، یہ بھی اُسی طرز عمل کو اپنا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp