پاکستان، کشمیر پر کچھ بھی نہیں کر سکتا


آپ کے جذباتی خیالات، آپ کو اک ذہنی و روحانی لذت بھلے دیتے ہوں، مگر یہ آپ کی زندگی کے موجود اور دانت نکوستے ہوئے مسائل حل نہیں کرتے۔ یہ دنیا معیشت سے جڑی سیاسیات، اور سیاست سے جڑی معاشیات کی دنیا ہے۔

آپ کی جذباتیت بھلے لال قلعے اور یروشلم پر سبز ہلالی پرچم لہرواتی پھرے، مگر آپ کے خیال سے اختلاف کرتا ہوا ڈیٹا کا اک سٹروک، آپ کے جذبات کے درجنوں تربیلا ڈیمز پر بھاری ہے۔ تو آئیے، ذرا انڈیا اور پاکستان کے ڈیٹا کی دنیا میں چلتے ہیں۔

انڈیا کی آبادی اس وقت ایک ارب، تیس کروڑ ہے۔ پاکستان کی آبادی تقریبا 21 کروڑ ہے۔ سنہ 2050 میں، انڈیا ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہو گا۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، انڈیا کی مڈل کلاس اس وقت تقریبا 61 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ جبکہ، بزنس ریکارڈر کے اک آرٹیکل میں، ڈاکٹر حفیظ پاشا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان کی مڈل کلاس آبادی کا تقریبا 30 فیصد ہے ؛ یعنی 7 کروڑ۔

ڈیڑھ ارب بمقابلہ، 21 کروڑ۔ 61 کروڑ بمقابلہ 7 کروڑ!

مسئلہ چھوٹی آبادی کا نہیں۔ مسابقت کی تخیلیقی صلاحیت پر بنیاد کرتی معیشت کا ہے جو پاکستان، انڈیا سے کہیں زیادہ بہتر اور قابلیت سے پیدا کر سکتا تھا۔ ہمارے ہاں ”میکما زرات“ نے وطن کو سیاسی طور پر مستحکم ہی نہ ہونے دیا۔ مضبوط معیشت، صرف اور صرف مضبوط سیاست و استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں، سینیٹ کے حالیہ انتخابات ہی بتانے کے لیے کافی ہیں۔

تو جناب، گلوبل فنانس کے مطابق، انڈیا دنیا کا 124 واں امیر ترین ملک ہے۔ گویا اس دنیا میں اس وقت 123 ممالک ایسے ہیں جو فی کس آمدنی کی بنیاد پر انڈیا سے زیادہ امارت رکھتے ہیں۔ ان میں مراکش، اردن، بھوٹان، مصر، جارجیا، روس، یونان، پولینڈ وغیرہ ایسے ممالک شامل ہیں۔ پاکستان دنیا کا 138 واں امیر ترین ملک ہے۔ جذباتی نعرے اپنی جگہ، نائجیریا، انگولا، گھانا اور برما، پاکستان سے زیادہ امیر ہیں۔

انڈیا کی فی کس آمدنی اس وقت 1,670 ڈالر ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدنی 1,196 ڈالر ہے۔ آپ ان اعداد کو ڈیڑھ ارب اور 21 کروڑ سے ضرب دے کر اپنی معاشی حیثیت کی تسلی کر سکتے ہیں۔

سنہ 2018 میں انڈیا کا جی ڈی پی تقریبا تین ٹریلئین ڈالرز تھا۔ پاکستان کا جی ڈی پی 313 ارب ڈالر تھا۔ آبادی ک تناسب سے بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک ہے، تو اس کا اسی حساب سے جی ڈی پی ایک اعشاریہ آٹھ ٹریلئین ڈالرز ہونا چاہیے تھا۔ وہ ایک اعشاریہ ایک ٹریلئین ڈالر آپ سے آگے ہے۔

سنہ 2018 میں انڈیا کی برآمدات 284 ارب ڈالر تھیں۔ اسی سال، پاکستان کی کل برآمدات صرف 24 ارب ڈالر تھیں۔ انڈیا کے ذخائر زرمبادلہ تقریبا 427 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان کے ذخائر 17 ارب ڈالر ہیں۔

2019 میں، 44 انڈین پیسوں کا ایک پاکستانی روپیہ آتا ہے۔ گویا، سوا دو پاکستانی روپوں کا ایک انڈین روپیہ ہے۔ آج سے چند برس قبل، یہ توازن، کچھ انہی اعداد کے ساتھ پاکستان کے حق میں تھا۔

میں اس نسل سے ہوں کہ جس نے 1980 کی دہائی میں انڈین مصنوعات اور معیشت کا خود مذاق اڑایا ہوا ہے۔ اب انڈین مصنوعات اور معیشت میری نسل، اور آپ کا بھی، مذاق اڑاتی ہیں۔ فوربز میگزین کے مارچ 2019 کے شمارے کے مطابق، انڈیا میں 131 ارب پتی ہیں۔ دنیا کے ساتویں امیر ترین آدمی، مکیش امبانی کی دولت 50 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سے تین گنا زیادہ۔ فوبز کی اسی لسٹ میں کوئی پاکستانی نہیں۔ چند ملین آبادی کا ملک، اسرائیل، 18 ارب پتی رکھتا ہے۔

مکرر: آپ کی جذباتیت بھلے جو مرضی ہے کہتی پھرے، مگر سچ یہی ہے کہ پاکستان، جو اس خطے اور دنیا میں اک کلیدی رہنما بن سکتا تھا، چند اک عقلمندوں نے اسے اسلام کا ایسا قلعہ بنا ڈالا کہ جہاں غیرجذباتی دلیل دینے والے تقریبا ہر شخص کو گالی ملی۔

سچ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کشمیر پر کچھ نہیں کر سکتا۔

پاکستان، کشمیر کو فوجی طریقے سے آزاد نہیں کروا سکتا۔ پاکستان، کشمیر کو سیاسی طریقے سے آزاد نہیں کروا سکتا۔ پاکستان، کشمیر کو سفارتی طریقے سے آزاد نہیں کروا سکتا۔ پاکستانیوں کی مودی کو دی جانے والی بددعائیں بھی کشمیر کو آزاد نہیں کروا سکتیں۔ نقلی لجاجت اور تقویٰ سے رو رو کر کی جانے والی دعائیں بھی کشمیر کو آزاد نہیں کروا سکتیں۔ عظیم اسلامی ”اُمہ کا چُما“ بھی کشمیر پر کچھ نہیں کر سکتا۔

پاکستان کے طاقتوروں نے 72 برس کی تاریخ میں کشمیر پر سامنے والے ہر اک موقع کو ضائع کیا اور برباد کیا، وگرنہ، اس قضیے کے باعزت حل کی بہت ساری جہتیں موجود رہی ہیں۔ مجھے پاکستانیوں پر اور کشمیریوں پر ترس آتا ہے۔ خود پر دوہرا ترس آتا ہے کہ میں پاکستانی کشمیری ہوں!

حقیقت یہ ہے کہ دنیا، پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کے وزن کو پہچانتی ہی نہیں۔ وہ جانتی ہے کہ یہ سیاسی نظام شاید اک ملازمانہ توسیع کے ساتھ بہت ڈیسپیریٹلی جڑا ہوا ہے، جبکہ معیشت کی شانداریت یہ ہے کہ حکومت شاید کنڈومز کی درآمد پر بھی ٹیکس لگا ڈالے گی۔

پسند ہو، یا نہ ہو، پاکستان کم از کم، میری زندگی میں، مجھے تو اپنی کمزور ترین پوزیشن پر کھڑا ہوا ملتا ہے۔ اتنا کمزور کہ میاں محمد بخش صاحب کے بقول، کمزور آدمی یا تو بھاگ سکتا ہے، یا پھر رو سکتا ہے۔ پاکستان، انڈیا کی ہمسائیگی میں سے کہیں بھاگ تو سکتا نہیں۔ تو آئیے، کہ مل کر رو ہی لیتے ہیں۔
بسم اللہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).