کشمیر جل رہا ہے اور ہم غبارے پھلا رہے ہیں


مقروض ہونا بڑی مشکل کیفیت ہے۔ پتہ نہیں وہ کون لوگ ہوتے ہیں جن کے دل پہ قرضے کا بوجھ نہیں ہوتا۔ آرام سے زنگی گزارے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں تو کل رات نیند ہی نہ آئی۔ کبھی لگتا کہ گرمی زیا دہ ہے۔ کبھی جسم ٹھٹھرنے لگتا۔ کاندھوں اور سر پر ایک عجیب سا بوجھ تھا جیسے کسی نے منوں وزن لاد دیا ہو۔ انسان اپنی کیفیت اچھی طرح سمجھتا ہے۔ ہمیں بھی سمجھ آ رہی تھی لیکن کوشش یہی تھی کہ آنکھ لگ جائے۔ کچھ ایسا لگنے لگے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

لیکن دل بھی ضدی یے۔ لاکھ سمجھاؤ جھوٹ بولنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ قرض کا بوجھ تھا۔ اتارے بغیر کیسے نیند آتی۔ صبح کا سورج نکلتے ہی ہم نے قلم تھاما کہ خود کو آزاد کریں۔ ابھی بھی آنکھیں بوجھل ہیں۔ لیکن قرض تو اتارنا ہو گا۔ ورنہ آج کی رات بھی آنکھوں میں کٹے گی۔

ہمارا بچپن کشمیر میں گزرا ہے۔ نوے کی دہائی تھی۔ سڑکیں کھلی تھیں۔ ہوا تازہ تھی۔ ہماری گرمی کی چھٹیوں میں اکثر رشتے دار ہماری طرف کا رخ کرتے۔ جھیل کی سیر کو جاتے۔ تمام رات چھت پر بیٹھ کر باتیں کرتے۔ پنجاب کی حدت سے چھٹکارا پاتے۔ صبح کا قریب کی پہاڑیوں پر چہل قدمی کرنے جاتے اور گھر آ کر تازہ آملیٹ اور خستہ پراٹھوں کا ناشتہ کرتے۔

ہمارے گھر کے ٹی وی لاونج کے دروازے سے منگلا جھیل صاف نظر آتی تھی۔ کچھ برف پوش پہاڑ بھی دکھتے تھے۔ جیسا کہ زمینی سطح میدانی نہیں تھی ہماری پہلی منزل کے ساتھ ہی ہمسایوں کا گیراج تھا۔ کسی کی زمین کسی دوسرے کی چھت تھی۔ ہمسائے بھی زیادہ تر کشمیری ہی تھی۔ اکثر کشمیری وہ تھی جو جموں کی وادی سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ ان کا رہن سہن بھی ذرا مختلف تھا۔ انگلینڈ پلٹ میرپوریوں کی نسبت یہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے تھے۔

ان کے گھروں میں زیادہ تر چاول بنتے تھے۔ لال لوبیا اور ابلے چاول ہر گھر کی مرغوب غذا تھے۔ یہ لوگ اسے موٹھی چاول کہا کرتے تھے۔ ہماری پسندیدہ مس آصفی بھی سری نگر سے ہجرت کر کے آئی تھیں۔ ان کی آنکھیں غلافی تھیں اور گھنے بال کمر کو ڈھانپ لیتے تھے۔ پڑوس کے ڈاکٹر گیلانی صاحب بھی مہاجر تھے اور اکثر سری نگر کا ذکر کیا کرتے تھے۔ بتاتے تھے کہ ان کا علاقہ بہت حسین ہے۔ وہاں کشتیوں میں کمرے ہوتے ہیں اور کوئی کسی سے نہیں لڑتا۔

ہمارے اسکول میں بھی بہت سے بچے انہی مہاجرین کی اولادوں تھے۔ بلکہ جیسے ہی کسی کا معلوم ہوتا کہ اس کا تعلق بھارتی مقبوضہ کشمیر سے ہے تو ہم سب یک دم مرعوب ہو جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ابھی بھی اپنے رشتے داروں کو ملنے جاتے تھے۔ واپس آ کر فوٹو دکھاتے تھے اور ہماری سری نگر جانے کی خواہش کو مزید بھڑکاتے تھے۔

میرپور کے مقامی لوگ زیادہ تر انگلینڈ میں مقیم تھے۔ وہاں سے خوب پاونڈ بھیجتے اور ان کے گھر والے خوب بڑے بڑے گھر تعمیر کرتے۔ شہر بہت پر سکون تھا۔ لاہور سے وہاں جانے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ اس سے خوبصورت جگہ کوئی نہیں۔ چوری چکاری کا کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ سب اچھے سبھاؤ سے ساتھ رہتے تھے۔ ہاں، ہمیں وہاں کسی قسم کی جائیداد کا کاروبار کی اجازت نہیں تھی۔ شرط یہ تھی کہ کوئی مقامی کشمیری شراکت دار ہو۔

ہمارے اسکول میں پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر کا ترانہ بھی گایا جاتا تھا۔ دونوں پرچم بھی بلند کیے جاتے تھے۔

باوجود اس کے کہ میرپور کے مقامی لوگ اور سری نگر والے مختلف لگتے تھے لیکن ان سب میں ایک ہی قدر مشترک تھی۔ ان سب کی ایک ہی خواہش تھی کہ ایک دن کشمیر اکٹھا ہو جائے۔ کبھی کبھی عجیب بھی لگتا تھا کہ پاکستان والے تو ان سے اس قدر محبت کرتے ہیں تو یہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہنا چاہتے۔ لیکن ان لوگوں کے دل میں یہی خواہش دبی تھی کہ اپنے بھائیوں سے جا ملیں۔ کئی دفعہ دیواروں پر جموں کشمیر کی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں لکھا ہوا بھی دیکھا۔ ہوٹلوں پر سری نگر کے محکمہ سیاحت کے اشتہار بھی دیکھے۔
ان سب کو یہ یقین تھا کہ ایک دن اکٹھے ہوں گے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کی چخ چخ سے چھٹکارہ پائیں گے۔

خیر، پھر ہم نے کئی شہر بدلے۔ البتہ بچپن کی دوستیاں اب بھی قائم ہیں۔ ابھی بھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پچھلے سال ایک سہیلی کے والد کا انتقال ہوا تو کئی دن اسی غم میں رہے۔

لیکن آج ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ بھارتی بربریت کی مثالیں شرما چکی ہیں۔ ہماری حکومت کی مجرمانہ خاموشی شاید عرش دہلا چکی ہے۔ جموں کشمیر میں سب ختم ہو چکا ہے۔ بھارت ایک شتر بے مہار کی طرح سب کچھ کچلنے کو تیار ہے۔ ہر قسم کے رابطے منقطع ہیں۔ تمام قیادت محصور کی جا چکی ہے۔ آرٹیکل 370 کیا ہوا کون نہیں جانتا ہے۔ ہماری حکومت جو ابھی چند دن پہلے ہی ٹرمپ میاں سے جھوٹی تھپکیوں پر بغلیں بجا کر آئی ہے اس وقت موت کا سکوت اوڑھے ہوئے ہے۔ قومی اسمبلی میں غباروں کے جہاز پھلا رہی ہے۔ شجر کاری کو اپنی اولین ترجیح بتا رہی ہے۔

ہم ہار گئے۔ کشمیریوں پر ترانے بنانے والے آج خاموش ہیں۔ ہمارے وہ احباب جو ’میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن‘ کی امید پر اپنا وطن چھوڑ آئے تھے اس وقت کس حال میں ہوں گے ہم نہیں جانتے۔ ہماری پوچھنے کی ہمت بھی نہیں۔ سہیلی کے والد کی موت کا پرسہ تو دے دیا تھا۔ پورے کشمیر کو وطن بدری اور مشکل وقت میں چھوڑ جانے پر اپنے گناہ کیسے دھوئیں، ہم نہیں جانتے۔

آج خیال آ رہا ہے کہ وہ جو پاکستان سے الحاق کے بھی حامی نہ تھے شاید سچ ہی کہتے تھے۔ آج دیکھ لی انہوں نے ہماری دلداری۔ بھارت اس وقت دھرتی کا خدا بنا بیٹھا ہے اور ہم اس کے ہر ظلم پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ غبارے پھلا رہے ہیں۔ درخت اگا کر بانسری بجا رہے ہیں۔ کشمیر جلتا رہے، ہمارے راگ تو نہ بگڑیں۔
لگ رہا تھا یہ کالم لکھ کر بوجھ کم ہو جائے گا۔ الفاظ اور دوستی کا قرض اتر جائے گا۔ ایسا نہیں ہوا۔ لگتا کے آج کی رات بھی آنکھوں میں کٹے گی۔ ہم سے بے وفا دوست اسی کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).