یقین کر لیں کہ ہندوستانی مسلمان ڈر گئے ہیں


آپ ہمیں ڈرانا چاہتے تھے سو بالآخر ہم ڈر گئے۔ یقین کرلیں کہ ہم ڈر گئے ہیں۔ یقین کرلیں کہ اب ہم اپنے سائے سے خوف کھانے لگے ہیں۔ سائے جو پہلے ہمارے اپنے ہوتے تھے۔ ہم ہر اس لفظ سے خوف کھانے لگے ہیں جو ہمیں یقین دلانے کے لیے وضع کیے گئے تھے۔ یقین کرلیں کہ جمہوریت، درخشاں جمہوریت، جمہوری اشتراکیت، قانون کی حرمت، مساوات، اخوت و محبت، مشترکہ ثقافت و وراثت اور ’کثرت میں وحدت‘ پر سے یقین اٹھ چکا ہے۔ یقین اٹھ چکا ہے، کوئی گمان بھی باقی نہیں رہا سو اب خوف ہے اور اس کے مہیب سائے ہیں جس میں کئی سوراخ ہیں اور کسی ایک سوراخ سے ’بِگ بردر دیکھ رہا ہے‘ ۔

یقین کریں کہ رات رات نہیں، دن دن نہیں، کوئی بھی پہر ہو، وقت کے مدار میں صرف ایک چیز گردش کررہی ہے اور وہ ہے خوف۔ خوف اپنی تمام تر وحشت و طغیانی کے ساتھ رگ رگ میں موجزن ہوگیا ہے۔ ملک کی ہر ریاست میں حراستی مراکز قائم کرنے کا فرمان دیکھ لیا ہے۔ ان حراستی مراکز میں ’غیر ملکی شہری‘ کے نام پر کن لوگوں کو مہمان بنا کر رکھا جائے گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کا ایکٹ (ترمیم شدہ) منظور ہوگیا ہے، اب بغیر کسی وجہ کے بھی ہمیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

مسلم خواتین کو تحفظ دینے کا ایکٹ بھی منظور ہوگیا ہے۔ اس ایکٹ کی ’خلاف ورزی‘ کی صورت میں بھی اگر کوئی گرفتار ہوگا تو وہ رام لکشمن نہیں تجمل حسین خان ہی ہوں گے۔ این آر سی ( نیشنل رجسٹرار آف سٹیزنس) کے عفریتی نتائج کیا ہوں گے اس سے بھی واقف ہیں۔ دفعہ 370 بھی ختم ہوگیا ہے اور محمد علی جوہر یونیورسٹی کے لیے غیرقانونی طور پر زمین ہتھیانے کے الزام میں اعظم خان کے خلاف 26 سے زائد ایف آئی آر سے بھی آگاہ ہیں۔

ان تمام اقدامات کا کیا یہی مطلب نہیں تھا کہ اس ملک کی ’بدمزاج‘ اقلیت کو اور زیادہ دیوار سے لگاکر ان کا مزاج ٹھیک کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور مطلب نہیں ہوسکتا تھا سو عرض یہ ہے کہ ہم دیوار سے لگ گئے ہیں۔ اب آگے کیا؟ لیکن آگے کیا سے قبل کیا ہے سنیں۔ ہم ہجرت نہیں کرنے والے ہیں، ہم اسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں سو یہیں مر کر خاک ہوں گے خواہ قیامت صغریٰ آئے یا کبریٰ۔ ہم خودرو ککرمتے کی طرح یوں ہی نہیں اُگ آئے ہیں۔

ہم چنگیزیوں کا عتاب جھیل چکے ہیں۔ جب منگولیا سے لے کر بغداد تک تاتاری فتنہ اپنے عروج پر تھا، جب ہمارے عزم و حوصلے پست ہوچکے تھے تب بھی نہ صرف ہم زندہ رہنے میں کامیاب رہے بلکہ ہم نے اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بازیافت کی اوراس کے بعد کئی صدیوں تک یہ چراغ روشن رہا، ہم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں، یہ چراغ اتنی آسانی سے بجھنے والا نہیں۔ اس چراغ کی لو مدھم ہوسکتی ہے، تیزآندھیوں کے بالمقابل ٹمٹمانے لگ سکتی ہے لیکن بجھ نہیں سکتی کہ بجھنا اس چراغ کا مقدر نہیں ہے۔

ہم نے اسی ملک میں ڈیڑھ سو سال تک انگریزوں کا جبری سامراج برداشت کیا ہے۔ ہمارے اسلاف توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑائے گئے ہیں۔ ان کے وجود کے چیتھڑوں میں سے ایک ہم ہیں سو اب یہ چیتھڑے کہیں اور جانے والے نہیں ہیں۔ یہیں کے تھے، یہیں رہیں گے سو اب آگے کیا؟ ہم نے تقسیم کا کرب جھیلا ہے، مذہبی جنون کا خوں رنگ رقص دیکھا ہے، ہم کوئی شہزادے نہیں، سخت جان زمین زادے ہیں اور سوختہ سامانوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں سو موج خوں اگر سر سے گزرتی ہے تو گزرنے دیں کہ اب ہم اس آستان سے اٹھنے والے نہیں ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ آپ نے ہمارے بارے میں غلط اندازہ لگایا ہے۔ یہی خوف ہماری انتہا تھی سو اب اس کے بعد کیا؟ آپ کی زنبیل میں اب اس کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے اور ہم اس خوف سے باہر نکلنا جانتے ہیں۔ ہم تاریخ ہیں، تاریخ کا حصہ نہیں اور تاریخ کا حصہ بننے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ بھلا 25 کروڑ مسلمان تاریخ کا حصہ کیسے بن سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی مجموعی آبادی سے چار کروڑ زیادہ اور امریکہ سے سات کروڑ کم ہے۔

سو اتنی بڑی آبادی کو کم از کم چالیس پچاس سال میں تاریخ کا حصہ تو آپ نہیں بنا سکتے۔ 17 سال ہوگئے گجرات میں ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے اور بی جے پی آج تک اپنے دامن کو صاف نہیں کرپائی ہے (اقتدار میں آنا ایک الگ چیز ہے اور یہ کوئی مستقل چیز بھی نہیں۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے کہا ہے۔ ہم زمانے کو ایسے ہی پلٹتے رہتے ہیں ) کانگریس سکھ مخالف فساد کے آسیب کا کوئی علاج نہیں ڈھونڈ سکی۔ سو 25 کروڑ مسلمان اتنی آسانی سے تاریخ کا حصہ کیسے ہو جائیں گے؟

زبان اور تہذیب تو سردست مٹنے سے رہی اور اب جب کہ ایک چِپ میں ہماری حضارت و ثقافت، ہماری زبان محفوظ ہوگئی ہے بھلا اسے اتنی آسانی سے کیسے حذف کیا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ کی موجودگی کی وجہ سے زبان پہلے سے زیادہ viable اور فعال ہوگئی ہے۔ سو قصہ مختصر اینکہ نہ تو مسلمان بہ اعتبار تعداد ختم ہونے والا ہے اور نہ ہی اس کی ثقافت اتنی آسانی سے مٹنے والی ہے۔ ایک خوف ہے جو یقیناً مستقبل پر نگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوا ہے۔

اس خوف کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ صرف مسلمان ہی ہدف نہیں ہیں۔ دلت اور سیکولر طبقہ نیز انگلش اسپیکنگ کلاس بھی ہدف ہے۔ سو اتنی آسانی سے یہ اہداف مکمّل نہیں ہونے والے ہیں۔ کہیں نہ کہیں بھگوا سامراج کو اپنی ترجیحات متعین کرنی ہوں گی اور ہمیں ان کی انہیں ترجیحات کا فائدہ اٹھانا ہوگا اور اگلے بیس پچیس برسوں تک جذباتی ہوئے بغیر اپنی طاقت اور وسائل کو مرتکز کرنا ہوگا۔

اگلے 25 سال ہماری تاریخ کا بہت ہی اہم باب (مثبت اور منفی دونوں حوالوں سے ) ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف جہاں مسلمان آبادی کے اعتبار سے زیاد تنومند ثابت ہوں گے وہیں دوسری طرف ہمارے قائدین کا سیاسی و معاشرتی رویہ کہ آیا تصادم کی راہ پر چلیں یا گریز کی راہ پر اہم کردار ادا کرے گا۔ فی الحال تو تصادم اور مایوسی کسی بھی مسئلے کا حل نظر نہیں آرہے ہیں۔ موب لنچنگ پر رونے دھونے سے بھی کچھ نہیں ہونے والا۔ مسلمان زیادہ حساس ہوگیا ہے اسے تھوڑا بے حس ہونے کی ضرورت ہے۔ یہی بے حسی گریز کی راہ پر لے جائے گی، یہی گریز ہماری طاقت کو مرکزیت عطا کرے گی اور یہی مرکزیت ہمارے اہم مسائل کا حل ثابت ہوگی۔ اس خوف مں ہمیں اپنے مسائل کا حل نظر آرہا ہے سو اب آگے کیا؟

محمد ہاشم خان، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ہاشم خان، ہندوستان

مصنف افسانہ نگار ناقد اور صحافی ہیں، ممبئی، ہندوستان سے تعلق ہے

hashim-khan-mumbai has 15 posts and counting.See all posts by hashim-khan-mumbai