کشمیر: آؤ نئی کہانی لکھتے ہیں


جو حل ہم بتاتے آ رہے ہیں، وہ ممکن نہیں ہیں۔ بھارت آج مخصوص حیثیت ختم کر رہا ہے۔ لداخ کو الگ کر رہا ہے۔ ہم تو یہ کب کا کر چکے ہیں۔ گلگت بلتستان ہم کب کا ہر فارمولے، ہر مساوات سے نکال چکے ہیں۔ جو کشمیر چین کے پاس گیا، کچھ اس نے خود لیا، کچھ ہم نے دے دیا۔ وہ گیا۔ شیر کے جبڑے میں ہاتھ ڈال کر گوشت واپس نہیں نکالا جاتا۔ اکسائے چین ادھر پڑا ہے، لداخ وہ رہا، جموں پہلے ہی اٹھا لیا گیا، گلگت جدا، بلتستان جدا۔

باقی جو بچی کھچی ریاست ہے، کیا وہ اپنے بل پر معاشی اور اقتصادی طور پر زندہ بھی رہ سکے گی؟ کون جانتا ہے۔ پر یہ بھی ایک سراب ہی ہے۔ زمین پر بچھی حقیقت تو یہ ہے کہ نہ پاکستان نے اپنے حصے سے دستبردار ہونا ہے اور نہ ہی بھارت نے، چین کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ پھر یہ بات اصولی ہو یا منطقی، ایک ایسا سپنا ہے جو صرف بند آنکھوں سے دیکھنا ممکن ہے۔ ادھر آنکھ کھلی، ادھر یہ ہوا ہُوا۔

استصواب رائے کی شرطیں کبھی پوری نہیں ہونی ہیں۔ عسکریت پسندی اور مسلح جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کشمیر کے ہر گھر کے ہر کمرے میں ایک قبر بن گئی ہے۔ جماعت اسلامی، حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کے قتیل ہمارے دانش ور اب بھی ”تحریک“ کا سودا بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے قلم میں وہ سیاہ پڑ جانے والا خون بھرتا ہے جو ستر سال سے مظلوم، بے گناہ کشمیریوں کے بے جان لاشوں سے رستا ہے۔ مسئلہ طلب اور رسد کا ہے۔ خون بیچنے والے سوداگروں کی بقا اسی میں ہے کہ بازار میں لہو دستیاب رہے خواہ اس کے لیے ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری نسل اجڑ جائے۔

کیا کشمیر کا مسئلہ آرٹیکل 370، سپریم کورٹ کے فیصلے، عدم وجود رکھنے والی آئین ساز اسمبلی، بھارتی یا پاکستانی مقننہ کی قراردادوں یا اقوام متحدہ کے باب ششم سے حل ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ نہیں، کہ ایسا ہونا ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا۔ کیا یہ فوجوں کے برسر پیکار ہونے سے سلجھے گا۔ 1948، 1965 اور 1999 میں پتہ چل گیا کہ اس سے بھی کوئی بہتری نہیں، بدتری ہی آنی ہے۔

کہنے کو ادھر ایک کٹھ پتلی حکومت ہے ویسے جو حکومت ادھر ہے اس کی ڈوریاں بھی کوہالہ کے پل کے اس پار بندھی ہیں۔ انہوں نے کچھ کرنا ہوتا تو کب کا کر چکے ہوتے۔ اچھا بھائی، کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد نہیں کہتے، اس سے کیا ہو گا۔ کیا وادی نیلم میں روزگار آ جائے گا، کیا باغ کی شرح خواندگی بہتر ہو جائے گی۔ کیا پلندری کی ٹوٹی سڑکیں موٹر وے میں بدل جائیں گی۔ کشمیر کو متنازعہ رکھ کر کشمیر نے کیا پا لیا۔ بین الاقوامی ترقیاتی منصوبے وہاں بروئے عمل لانا ممکن نہیں رہا، سرمایہ کاری پر بندش ہے، پل، سڑکیں، تعلیم اور صحت مخدوش تر ہوتے گئے کہ اسے اِدھر بھی اور اُدھر بھی ایک سوتیلی حیثیت حاصل رہی جسے ہم مخصوص کہہ کر خوش ہو لیتے ہیں۔

کیا یہ واضح نہیں کہ پاکستان اور بھارت کبھی بھی اپنے اپنے کشمیر پر سے اپنا قبضہ ختم نہیں کریں گے۔ اگر یہ بات ستر سال میں بھی واضح نہیں ہوئی تو پھر دیکھنے والوں کی بینائی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ڈیڑھ ارب لوگ اس مسئلے کے کب تک یرغمال بنے رہیں گے۔ کشمیریوں نے اپنی مخصوص حیثیت سے کیا کمایا ہے۔ کنٹرول لائن کے دونوں جانب ایک عام کشمیری کی حالت دگرگوں ہے۔ جہاں جہاں سے خط متارکہ جنگ گزرتا ہے وہاں انسانی جان سب سے کم قیمت شے ہے۔ یہ کہانی اسی لہجے میں، اسی آہنگ میں کب تک کہی جاتی رہے گی، کب تک لکھی جاتی رہے گی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ مستقل پیچھے کی طرف گھومے ہوئے سر سیدھے کر کے آگے دیکھا جائے۔ خوشنما لفظوں کے پنجرے سے باہر نکل کر ننگے حقائق کا سامنا کیا جائے۔ جو کشمیر اُدھر ہے، اس کو بھارت کا حصہ بننے دیں۔ جو اِدھر ہے اسے پاکستان کہنا شروع کر دیجیے۔ اس سے کچھ لوگوں کی سیاست اور کچھ کی روزی پر لات پڑے گی، پڑ لینے دیجیے۔

دو حصوں میں بٹے پنجاب میں کرتارپورہ کا راستہ بنے تو ساتھ ٹیٹوال کا پل بھی کھول دیا جائے۔ کشمیری کشمیری ہی رہیں گے۔ زمین بھی جہاں ہے، وہیں رہے گی پر بندوقیں تاننے اور باڑ گاڑنے کی جگہ پھول بانٹنے اور رستے بنانے کا وقت ہے۔ بارہ مولا کے نوجوان کے ہاتھ میں کتاب دیجیے اور نوسیری کے کاشتکار کو ٹریکٹر چلانے دیجیے۔ کشمیر کو مسئلہ کہنا بند کیجیے اور کشمیر کو حل سمجھنا شروع کیجیے۔ نفرت کی زمین میں محبت کی فصل اگانے کا وقت ہے۔

ایک ارب لوگوں کا خطہ ہمیشہ حالت جنگ میں نہیں رہ سکتا۔ کشمیر جہاں ہے، وہیں رہے گا۔ اگر راستے کھل جائیں، بچھڑے گلے مل سکیں، سرحد بس نام کی رہ جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ دریا کے اس پار ترنگا لہرانے اور اس پار سبزو سفید ہلالی پرچم۔ سفارت کار نورا کشتی کرنا چھوڑیں اور یورپ جیسے تعلقات کی بات کرنا شروع کریں۔ کشمیر پر سیاست بہت ہو گئی، جنگ بھی بہت ہو گئی۔ اب کشمیرپر تھوڑی سی بات انسانیت کی کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ چلیے، کچھ نئے لفظ ڈھونڈتے ہیں، ایک نئی کہانی لکھنے کا وقت آ گیا ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad