مانوس اجنبی


1975ء کی سردیاں تھیں۔ میں نے ایم اے کا امتحان دے رکھا تھا اور نتیجہ آنے میں ابھی مزید کئی ماہ باقی تھے۔ ہمارے ہاں بیشتر امتحانات اور ان کے نتائج کے درمیان کم از کم دو موسموں کا وقفہ ضرور ہوتا ہے۔ شاید اس کے پیچھے یہ حکمت ہے کہ طلباء کو پیش آنے والی ممکنہ بیروزگاری کے لیے تیاری کرا دی جائے۔ مجھے ایک تو لکھنے پڑھنے سے کچھ شغف ہے، دوسرے شطرنج کا شوق ان دنوں جنون کی حد تک تھا، لہٰذا بے کاری کا احساس تو بہت دور کی بات ہے، مجھے مصروفیت کا اتنا لطف پھر کبھی نہیں آیا۔

ایک روز دوپہر سے کچھ پہلے میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا شطرنج کی ایک کتاب کے مطالعے میں مشغول تھا۔ وہ کتاب ویسے تو دنیا کے عظیم کھلاڑیوں کے مابین کھیلی گئی بازیوں اور ان کے تفصیلی تجزیوں پر مشتمل تھی لیکن، غالباً اس کے دیباچے میں یا کسی اور جگہ، شطرنج سے انسانوں کے عشق کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا تھا کہ ایک شہزادی کو یہ کھیل اتنا بھا گیا تھا کہ اس نے نہ صرف اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور ایک ماہر ترین کھلاڑی بن گئی، بلکہ یہ اعلان بھی کروا دیا کہ شادی اس سے کرے گی جو اسے شطرنج کی بساط پر مات دے گا۔ مصنف نے یہ بات بڑے سرسری انداز میں کہی تھی اور ’پھر کیا ہوا‘ پر روشنی ڈالے بغیر اور باتوں میں لگ گیا تھا۔ مگر مجھے یہ صورتحال اتنی دلچسپ اور عجیب و غریب لگی کہ میرے لیے اس کا ساتھ دینا ممکن نہ رہا۔

پہلے تو مجھے یہ یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ ہر مصنف مبالغے سے کام لیتا ہے لیکن یہاں تو حد ہی ہو گئی تھی۔ پھر مجھے بچپن میں سنی اور پڑھی ہوئی کہانیوں کے حوالے سے یاد آیا کہ شہزادیاں اپنی شادی کے سلسلے میں عجیب و غریب شرائط رکھا کرتی تھیں۔ اس کی وجہ بھی میری سمجھ میں آتی تھی۔ انسان کا اعلیٰ ترین کمال یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ بادشاہ بن جائے، لیکن ایک بادشاہ زادی اس ’کمال‘ کی اس حد تک عادی ہو چکی ہوتی کہ اسے ’کچھ اور‘ کی جستجو ہوتی۔ شہزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ عورت بھی حسین ترین ہوتی، کیونکہ اس کے باپ نے اپنے وقت کی حسین ترین عورت سے شادی کی ہوتی، اور وہ خود بھی ایک حسین ترین جوڑے کا فرزند ہوتا، کیونکہ۔ سو دنیا جہان کے شہزادے اس سے شادی کے امیدوار ہو جاتے۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک، یا یوں کہہ لیں کہ کوئی کسی سے کم نہیں۔ اب شہزادی کے لیے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا محال ہو جاتا۔ لہٰذا اپنے مزاج، ماحول اور موقع محل کے مطابق جو بھی اس کے من میں آ جاتا وہی ان امیدواروں کے لیے اعلیٰ ترین کمال کا معیار ٹھہرتا۔

بلکہ میرا تو خیال ہے کہ ’چاند پر تھگلی لگانا‘ اور ’ہتھیلی پر سرسوں جمانا‘ قسم کے محاورے انہی شہزادیوں کی دین ہیں۔ چنانچہ مجھے یقین آ گیا، مگر اس یقین کا آنا تھا کہ ایک محشر خیال برپا ہو گیا۔ شہزدی کے باپ یعنی بادشاہ کا کیا ردعمل ہوا ہو گا؟ کیا شہزادے واقعی عقل کے، معاف کیجیے حسن کے اتنے اندھے تھے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ، شطرنج سیکھنے اور اس میں کمال حاصل کرنے میں جت گئے ہوں گے؟ پھر معاملہ شہزادوں تک محدود نہ رہا ہو گا۔ شطرنج کے کھلاڑیوں نے اس اعلان کو کیسے سنا ہو گا۔ دشمن رشک سے مرے جاتے ہوں گے۔ کھوٹے سکے بھی چل جاتے ہیں، مگر اس طرح؟ شطرنج کھیلنے کے لیے عقل چاہیے، لیکن عقلمند لوگ شطرنج نہیں کھیلتے۔ اب عقلمند لوگ اپنی عقل کو کوستے ہوں گے

کیمیا گر بہ غصہ مردہ و رنج

ابلہ اندر خرابہ یافتہ گنج

ہاں آخر کسی احمق نے تو یہ ’خزانہ‘ پایا ہو گا۔ احمق؟ اور نہیں تو کیا۔ اب یہ اس کی خوش قسمتی کہ شہزادی اس سے بھی بڑی احمق تھی۔

میں سوچتا گیا۔ میری سوچوں نے رگ و پے میں سرایت کرنا شروع کر دیا۔ جسم میں اک سنسنی سی دوڑنے لگی۔ دھوپ کی خوبصورتی اور خوشگوار تمازت نے پہلے ہی خمار کی سی کیفیت طاری کر رکھی تھی۔ گہری تنہائی، وسیع خاموشی اور پرندوں کی آوازوں نے ماحول کو خوابناک بنایا ہوا تھا۔ میں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور جانے کتنی دیر کھویا رہا۔ چونکا اس وقت جب مجھے اپنے ساتھ والی کرسی پر، جو اَب تک خالی پڑی تھی، کسی کے بیٹھے ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے دیکھا، اس پر ایک شخص بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ وہ میرے لیے اجنبی تھا۔ میں سمجھا کہ وہ چچا یا بھائی کا ملنے والا ہو گا جو غلطی سے میرے پاس بھیج دیا گیا تھایا پھر ان کے آنے تک اسے صحن میں بیٹھنے کو کہا گیا تھا۔ لیکن مجھے خیال آیا کہ چچا تو دفتر گئے ہوئے تھے اور بھائی کالج۔ گویا وہ میرے ہی پاس آیا تھا۔ اور اس میں حیران ہونے کی کیا بات تھی۔ صبح سے شام تک جن بے شمار لوگوں سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ سب کے سب پہلے سے آپ کے واقف ہوں۔ آپ اکثر کسی نہ کسی سے پہلی بار مل رہے ہوتے ہیں۔ مگر یوں نہیں ملتے۔ وہ تو ایسے آ کر بیٹھ گیا تھا جیسے کوئی بہت ہی گہرا دوست، جو علیک سلیک کی، اور بعض اوقات کچھ بھی کہنے کی، ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ جیسے وہ کہیں باہر سے نہ آیا ہو بلکہ آپ ہی کے ساتھ رہ رہا ہو اور چند لمحے پہلے بھی آپ کے ساتھ ہی تھا۔

اجنبی کی آنکھیں مجھ سے ہم کلام تھیں اور اس کے رویے سے گہری شناسائی بلکہ ربط قلبی ظاہر ہوتا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیسے بات شروع کروں۔

 ”میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ “ بالآخر وہی بولا۔

 ”کیوں؟ “ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

 ”آپ نے مجھے آزاد کرایا ہے۔ “

 ”میں نے، ؟ کب؟ کیسے؟ “ میں نے حیرت سے پوچھا۔

 ”ابھی۔ میں اس کتاب میں بند تھا۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments