پاکستانی سیاست اور ہمارا رویہ


بقول نقوی صاحب! ”اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی دشت ہجراں کی شام جیسا ہے۔“ حبس زدہ اور گھٹن سے بھر پور مہیب سایوں سے ڈھکی گہری اور تاریک شام جیسا حال ہے۔ الفاظ ہیں کہ ذہن کے دریچوں پہ دستک دے کر غائب ہو رہے ہیں اور قلم ہے کہ اذیت کی اس گھڑی میں لکھنے سے انکاری ہے دل نادان کی دھڑکنیں بے ترتیب سانسیں گڈ مڈ ہو اور روح گھائل ہوئی جاتی ہے۔

سمجھ سے باہر ہے کہ لکھنے کا یہ سفر شروع کدھر سے کروں اور کن پگڈنڈیوں سے گزر کر گرتا سنبھلتا منزل پہ پہنچنے کی کوشش کروں۔

سیاست کے موضوع پہ شاید بلکہ یقیناً یہ کوشش ہو گی کہ آخری تحریر ہو اور آئندہ اس تلخ موضوع کو چھیڑ کر نہ خود کو اذیت دوں نہ خود سے جڑے رشتوں کو کسی امتحان میں ڈالوں۔ دنیا بھر میں سیاسی عمل کو بروئے کار لا کر اقتدار کی غلام گردشوں کا تعین کیا جاتا ہے مگر وطن عزیز میں اس سیاسی عمل کو اتنا گندہ کر دیا گیا ہے کہ یہاں سیاست کو ایک گالی کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ منافقت کا نام سیاست رکھ دیا گیا ہے اور کوئی ان پڑھ سا بندہ بھی اگر سمجھے کہ کوئی دوسرا اس کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ عام ان پڑھ سا شخص بھی اس عمل کو سیاست سے تعبیر کرتا ہے کہ تم میرے ساتھ سیاست کر رہے ہو۔ یعنی لفظ سیاست کو بطور دھوکہ یا جرم کے استعمال کیا جاتا ہے۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ مگر چونکہ اپنے وطن میں اپنی سیاست کو ”گھری ہو طوائف تماش بینوں میں“ والی مشابہت ہی جچتی ہے۔ اس لئے اس کا زیادہ تر استعمال بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔

شاید ماضی میں بھی اپنے ہاں سیاست کا کھیل اتناہی گندہ اور مکروہ ہو جتنا اب ہے مگر چونکہ اس وقت اپنا شعور لاشعور تھا اور ہم ایسے طفل مکتب تھے جو صرف کچی فصلوں کا نقصان کرتے تھے اور سیاسی حق و باطل صرف بزرگوں سے سنا اور کتابوں سے پڑھا ہوا تھا اور ایسے حقائق کبھی دل کو لگ جاتے تو کبھی دل سخت گیر ان کو ماننے سے انکار کر دیتا تھا۔

اب جس سیاست کے ہم عینی شاہد ہیں اس میں سوائے نفرت، نفرت اور نفرت کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بیج جس نے بھی بویا ہے انتہائی عمدہ طریقے سے بو کر میری اور میری نسل کی رگوں میں اس حد تک اتار دیا ہے کہ ہمیں اپنے درست ہونے کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ غلیظ گالی ہے کہ میری جزو زبان اور پسندیدہ کلام ہو گئی ہے۔ دلیل ہے کہ ناکام ہو گئی ہے۔ عمل ہے کہ بے عمل ہو گیا ہے۔ کردار ہے کہ مشکوک ہو گیا ہے۔ اعتماد ہے کہ ختم ہو گیا اختلاف ہے کہ برداشت نہیں ہو رہا۔ سچ ہے کہ چھپایا جا رہا ہے جھوٹ ہے کہ اچھالا جا رہا ہے۔ جھوٹ اور سچ کو اتنا گڈ مڈ کیا جا رہا ہے کہ حق کے متلاشی حق ڈھونڈتے ہوئے لڑکھڑا رہے ہیں اور سچ بولنے والے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ جان جانے کے خوف سے لب سئیے بیٹھے ہیں۔

جمہوری اور مدلل لب و لہجے جو معاشرے کا حسن ہیں خاموش کرائے جا رہے ہیں۔ بات بات پہ بندہ بندہ غداری و گستاخی کے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ بانٹ رہا ہے۔ نہ خدا کا کوئی ڈر اور نہ خدا کے بنائے کسی اصولوں کا پاس ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بے ترتیبی و بد تہذیبی سے گھسنے کی جنگ جاری ہے۔ اس پر فتن دور میں سچ بولنے کی ہمت بھی نہیں اور چھپانے کی عادت بھی اندر ہی اندر ملامت کر رہی ہے مگر مصلحت کا نام دے کر خود کو تسلی دینے کی ناکام کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

کچھ لوگ وقت گزر جانے کے بعد حقائق سے پردہ ہٹاکر اپنے ملامتی ضمیر کو تسلی دینے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں کیونکہ پنجابی کی کہاوت ہے ”پھل موسم دا، گل ویلے دی۔“ وقت گزر جانے کے بعد بولے گئے سچ کو تاریخ کے اوراق میں کم ہی جگہ ملتی ہے۔

مولا علی علیہ السلام کا فرمان سنا تھا کہ ”حق اور باطل میں چار انگلیوں کا فرق ہے“ تو پوچھنے والے نے عرض کی کہ ”امیر المومنین حق اور باطل میں چار انگلیوں کا فرق کیسے؟“

آپ نے فرمایا ”جو آنکھوں سے دیکھا وہ حق جو کانوں سے سنا وہ باطل۔“ گویا حق و باطل میں فرق چار انگلیوں کا رہا۔ اسی قریبی تعلق کی وجہ سے شاید آسانی سے حق و باطل آسانی سے گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔

اس سیاست نے ہمیں اس موڑ پہ پہنچا دیا ہے کہ ہمیں اپنے رشتوں، اپنی محبت اپنے تعلق کسی کی پروا نہیں ہم صرف انا کی تسکین کی خاطر اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں مگر میں کمزور اور بزدل رشتوں کو کھونے سے ڈرتا ہوں اس لئے آج سے اس سطحی لیول کی سیاست سے کنارہ کشی کرتا ہوں۔

خدارا اس مکروہ کھیل کو آپ بھی ختم کیجئے مجھے اور میری نسلوں کو اصل حقائق سے آگاہ کیجئے تاکہ ہماری آپس کی نفرتوں کا خاتمہ ممکن ہو اور ہم پیار و محبت سے رہ کر پاکستان کو اور اس گھٹن زدہ معاشرے کو خوبصورت اور مضبوط بنا سکیں۔

اللہ کرے نئے پاکستان میں پرانے پاکستان والے ازخود بنائے گئے ظلم و جبر کے قوانین کا خاتمہ ہو اور نئی سحر کہ جس کا وعدہ تھا وہی روشن اور چمکیلا آفتاب طلوع ہو۔

(سیاست کی وجہ سے بڑھتی نفرت کی وجہ سے ذہنی تھکاوٹ سے لکھی گئی تحریر۔ شاید موضوع سے دور ہو گئی ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).