پاکباز لڑکی اور صالح نوجوان


عابد نے چابی گھمائی اور تالا کھل گیا۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا اور جلدی سے اندر داخل ہو گیا۔ یہ تین مرلے کا مکان اس کے دوست راشد کا تھا۔ نہ جانے کیوں اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ دو تین بار وہ اس مکان میں آیا تھا۔ راشد کی شادی ایک سال قبل ہی ہوئی تھی۔ ان دنوں اس کی بیوی میکے گئی ہوئی تھی۔ عابد نے جب اس سے درخواست کی کہ وہ ایک دن کے لیے اسے گھر کی چابی دے دے تو وہ بخوشی مان گیا۔ چناں چہ اب وہ اس مکان میں تھا۔ راشد اپنے سسرال چلا گیا تھا۔

عابد بیڈ روم میں آ گیا۔ راشد نے گھر بڑے سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ اکلوتے بیڈ روم میں چالیس انچ کا ایل ای ڈی ٹی وی تھا۔ کھڑکیوں پر خوبصورت پردے، دیوار پر اے سی لگا تھا۔ اس نے اے سی آن کر دیا۔ چھوٹے سے لاؤنج کے ساتھ ہی چھوٹا سا کچن تھا۔ وہیں فریج بھی موجود تھا۔ عابد نے ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگ سے بوتل نکال کر فریج میں رکھی۔ اب وہ قدرے مطمئن تھا۔ اس نے موبائل نکال کر وقت دیکھا۔ سہ پہر کے تین بجے تھے۔ وہ بیرونی دروازے کے پاس آ گیا۔

ایک دو بار سوچا کہ فون کرے پھر رک گیا۔ ”مجھے ابھی دس پندرہ منٹ انتظار کرنا چاہیے۔ “ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ اچانک میسج ٹون بجی۔ اس نے جلدی سے میسیج پڑھا۔ پھر جیب سے سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔ باہر اچھی خاصی گرمی تھی اس نے دو تین گہرے کش لیے پھر سگریٹ بجھا کر اندر کمرے میں آ گیا۔ کمرے کا ٹمپریچر کافی کم ہو چکا تھا۔ اس نے چند گہری سانسیں لیں اور ٹی وی آن کیا۔ خبریں چل رہی تھیں مگر اس کا دھیان تو کہیں اور ہی تھا۔

اس نے وقت دیکھا اور ایک بار پھر باہر آ گیا۔ اس نے دروازہ کھولا اور باہر دیکھنے لگا۔ عین اسی وقت ایک رکشہ باہر آ کر رکا۔ ایک لڑکی رکشے سے اتری جو سیاہ برقع میں ملبوس تھی۔ عابد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔ رکشہ آگے روانہ ہوا تو لڑکی لپک کر عابد کی طرف بڑھی۔ وہ بھی اسے دیکھ چکی تھی۔ جیسے ہی وہ اندر آئی عابد نے فوراً دروازہ بند کر دیا۔

لڑکی نے نقاب الٹ دی اور عابد کے سینے سے لگ گئی۔ ”کہاں رہ گئیں تھیں زاہدہ! بڑی راہ دکھائی۔ “ عابد نے اسے چومتے ہوئے کہا۔ ”چھوڑو یہ فکر کرو کہ محلے والوں نے ہمیں دیکھا نہ ہو۔ “ عابد مسکرا اٹھا۔ ”ڈرتی ہو؟ فکر نہ کرو یہاں کسے پڑی ہے کہ دوسروں کا دھیان رکھے۔ “

عابد اسے بیڈ روم میں لے آیا۔ ”واہ مکان تو اچھا ہے“ زاہدہ نے برقع اتارتے ہوئے کہا۔ عابد کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے لان کا مہین شلوار قمیص پہنا ہوا تھا۔ لمبے سیاہ بال کمر پر لہرا رہے تھے۔ رنگت گوری اور چہرے کے نقوش دل کش تھے۔ عابد نے اسے جب پہلی بار دیکھا تھا اسی وقت اس کے دل میں آرزو پیدا ہوئی تھی کہ وہ اسے حاصل کر سکے۔ اب کئی مہینوں بعد اسے یہ موقع ملا تھا۔

”اب ذرا اپنی حریصانہ نظریں ہٹاؤ مجھے شرم آ رہی ہے۔ “ زاہدہ نے آنکھیں دکھائیں۔ عابد نے جھینپ کر نظریں ہٹائیں۔ ”بیٹھو ناں۔ “

زاہدہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تو عابد بھی اس کے پاس بیٹھ گیا اور بازو اس کی کمر کے گرد لپیٹ دیا۔ ”اف سانس تو لینے دو۔ “ زاہدہ فوراً کھسک کر پرے ہٹ گئی۔ عابد اٹھا اور فریج سے پانی کی بوتل لے آیا۔ دو تین گھونٹ پانی پینے کے بعد زاہدہ نے گہری سانس لی۔ ”ہوں اب ٹھیک ہے، سگریٹ لائے ہو؟ “

عابد نے فوراً سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔ زاہدہ کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ عابد نے ایک سگریٹ نکال کر زاہدہ کے ہاتھ میں تھمایا اور ایک اپنے ہونٹوں میں دبا لیا پھر لائٹر نکالا۔ دونوں سگریٹ سلگ اٹھے۔
”دو دن سے موقع ہی نہیں مل رہا تھا، گھر میں اتنے مہمان تھے۔ “ زاہدہ نے ایک گہرا کش لگاتے ہوئے کہا۔

”تو بعد میں کیا کرو گی، تم تو اس کی عادی ہوتی جا رہی ہو؟ “ عابد نے جان بوجھ کر دھواں اس کے چہرے کی طرف چھوڑتے ہوئے کہا۔
”کیا کرتے ہو جان! مجھے یہ بالکل پسند نہیں ہے۔ “ زاہدہ نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔ عابد مسکرا اٹھا۔ ”اچھا یہ باتیں چھوڑو میری بات کا جواب دو؟ “

”ہائے کیا بتاؤں، پتا نہیں کیا ہو گا، شاید میں چھوڑ دوں۔ “
”کسے؟ اسے یا سگریٹ کو؟ “

”حد کرتے ہو تم بھی سگریٹ اور کیا۔ “
”ہو سکتا ہے اسے اعتراض نہ ہو۔ “

”ناممکن، میری اماں کی پسند ہے، انہوں نے کوئی صالح ہی ڈھونڈا ہو گا۔ “
”اچھا ٹھیک ہے ہم اپنی باتیں کرتے ہیں۔ “
عابد جیسے بیزار سا ہو گیا۔ ”کیوں جلن ہو رہے ہو؟ “ زاہدہ ہنسنے لگی۔

”بالکل نہیں، میرے ساتھ بھی تو وہی ہو رہا ہے، مولوی باقر کا بیٹا اپنے باپ کی عزت داؤ پر نہیں لگا سکتا۔ “
”تم نے دیکھا ہے اسے؟ “ زاہدہ نے ایش ٹرے میں سگریٹ مسلتے ہوئے کہا۔

”کیا بات کرتی ہو میں ایک شریف نوجوان ہوں جہاں والد محترم کہیں گے چپ چاپ شادی کر لوں گا نہ لڑکی کو دیکھوں گا نہ اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کروں گا۔ یہ کام ہمارے گھر کی عورتیں کرتی ہیں۔ “ عابد بولا۔

”میری اماں اور چاچے تائے بھی عزت دار لوگ ہیں، وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ شادی سے پہلے لڑکی لڑکے سے ملے اسی لیے جب میری کزن نے پوچھا کہ تصویر لاؤں تو میں نے منع کر دیا۔ کیا فائدہ؛ ہونا تو وہی ہے جو وہ چاہیں گے۔ “

”ویسے تم نے بڑی ہمت دکھائی، میں تو سوچ رہا تھا شاید تم نہ آ سکو۔ “ عابد نے تعریفی انداز اختیار کیا۔
”آنا تو میں نے ہر حال میں تھا۔ ایک اور سگریٹ دو ناں“۔ زاہدہ بولی۔

”ٹھہرو تمہارے لیے کچھ اور بھی ہے۔ “
عابد اٹھا اور فریج سے ووڈکا کی بوتل نکال لایا۔ دو گلاسوں میں برف ڈال کر اس نے جام بنائے اور ایک گلاس زاہدہ کی طرف بڑھا دیا۔
زاہدہ نے ایک گھونٹ لیا اور گلاس میز پر رکھ دیا۔ ”اف! یہ مجھ سے نہیں پی جائے گی۔ “

”اچھا ایک اور چیز بھی ہے۔ “ عابد اٹھا اور یو ایس بی ٹی وی سے لگا کر ٹی وی آن کر دیا۔
زاہدہ نے پہلے ٹی سکرین کی طرف دیکھا پھر عابد کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ”سچی عابد! بڑے بے شرم ہو تم۔ “

”تو بند کر دوں؟ “
”اچھا ذرا دیکھ تو لینے دو۔ “

عابد اس کے قریب ہو گیا۔ آج اسے زاہدہ کے ساتھ گزارے ہوئے تمام دن یاد آ رہے تھے۔ اس کی کپڑے کی ایک دکان تھی۔ دکان میں اس کے چچا کی شراکت تھی۔ دو تین ملازم لڑکے تھے۔ عابد عام طور صبح سے سہ پہر تک دکان پر بیٹھتا تھا پھر اس کے چچا آ جاتے تھے۔ شام کو وہ اپنے دوستوں کی طرف نکل جاتا اور کچھ موج میلہ بھی کر لیتا۔ ایک دن ایک لڑکی دکان پر آئی۔ اس نے ایک بڑی سی سیاہ چادر جسم پر لپیٹی ہوئی تھی۔ عابد نے اسے خود ڈیل کیا۔ چناں چہ وہ بار بار آنے لگی۔

وہ لڑکی زاہدہ تھی۔ پھر ایک دن اس نے زاہدہ کو چپکے سے ایک پرچی پکڑا دی۔ فون پر رابطہ ہو گیا۔ اب رات کو فون پر باتیں ہونے لگیں۔ کبھی کبھی وہ رسک لے کر زاہدہ کو کسی دور دراز کے ریسٹورانٹ میں بھی لے جاتا رہا تھا۔ زاہدہ تو برقعے میں ہوتی تھی مگر عابد کو بڑا محتاط رہنا پڑتا تھا۔ فون پر لمبی لمبی باتیں ہوتیں۔ پھر ان باتوں کا رخ بدل گیا۔ اب ان دونوں کو تنہائی کی تلاش ہوتی تھی تا کہ کھل کر باتیں کر سکیں۔ کوئی ایسی بات نہیں تھی جو انہوں نے فون پر نہ کی ہو۔ اگرچہ اس طرح انہیں کچھ ملتا تو نہیں تھا مگر کسی جذبے کی تسکین ضرور ہو جاتی تھی۔ شاید اسی لیے وہ اپنی ناآسودہ خواہشوں کی تکمیل اسی طرح کرتے رہتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2