کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟


مقبوضہ جموں و کشمیر سے ایک جذباتی وابستگی ہر پاکستانی کے خون میں شامل ہے۔ نسلوں سے ہم ایک ہی سبق پڑھتے آئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ لاکھوں کشمیری شہید کیے گئے ہیں اور اس سے کہیں بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں تباہ کی گئی ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز کا معمول ہے۔ اب اس کا کیا کیجئے کہ سرحد کے اُس پار بھی کشمیر کے حوالے سے جذباتیت کی کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہے۔ سات عشرے سے زائد وقت گزرنے کے بعد اب یہ مسئلہ اتنا گنجلک ہو چکا ہے کہ شاید ہی ہم اپنی زندگیوں میں اس کا کوئی پرُامن حل دیکھ سکیں۔ تاریخی پسِ منظر میں جائے بغیر موجودہ صورتحال کا کچھ تجزیہ کرتے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں ایک اہم مدعا ہندوستان کے آئین میں کشمیر کو دیا گیا خصوصی درجہ ختم کرنا رہا ہے۔ گذشتہ دورِ اقتدار میں مودی کی بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ کشمیر میں اتحادی حکومت بنائی لیکن بوجوہ اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس بار جب نریندر مودی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تو یہ نوشتہ دیوار تھا کہ اس بار وہ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے میں ترمیم کر کے کشمیر کو دیگر ہندوستانی ریاستوں جیسا درجہ دینے کی کوشش کریں گے۔

لیکن یہ سب کچھ اتنی جلدی ہو گا، اس کی توقع کسی کہ نہ تھی۔ آئین کا مذکورہ آرٹیکل مہاراجہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق نامے کو تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے مطابق بھارت کے ساتھ الحاق صرف خارجہ امور، دفاع اور کرنسی تک ہو گا جبکہ دیگر معاملات میں کشمیری خودمختارہوں گے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے، سرکاری نوکریوں کے لئے اپلائی نہیں کر سکتے وغیرہ۔

جس طرح اپنے ہاں بھی آزاد کشمیر کو وفاقِ پاکستان میں ایک مخصوص درجہ حاصل ہے۔ پاکستانی شہری آزاد کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے۔ گو پاکستان نے کشمیر کے متنازعہ حیثیت کے پیشِ نظر ایک مخصوص درجہ دیا ہے جو ابتدائی طور پر ایک عارضی انتظام تھا۔ اب گزشتہ چند دنوں سے کشمیر میں غیرمعمولی فوجی نقل و حرکت دیکھی جا رہی تھی۔ اضافی دستے تعینات کیے جارہے تھے۔ بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی نے امت مسلمہ کے نام ایک پیغام میں صورتحال کی سنگینی کی جانب توجہ دلائی۔ آج بھارت میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

بھارتی شہری یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کو بھی ایک عام ریاست کے مطابق درجہ دیا جانا چاہیے۔ کیونکہ کشمیری پورے ہندوستان میں جائیداد خرید سکتے ہیں، نوکریاں کر سکتے ہیں تو باقی ہندوستان کے شہری کیوں اس حق سے محروم ہیں۔ جذباتی طور یہ استدلال شاید وزن رکھتا ہو، لیکن ایسا کہنے والے مہاراجہ کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے سے بے خبر ہیں۔

کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے دونوں دھڑے ایک بار پھر اتحاد کے قریب ہیں۔ سید علی گیلانی کی قیادت میں سرگرم گروہ پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ میرواعظ عمر فاروق اور دیگر نسبتاً معتدل امیج کے حامل ہیں۔ 1948 کی جنگ کے بعد کشمیری سیاست میں دو گروہ فعال تھے۔ ایک چوہدری غلام عباس تھے جو پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے اور پاکستان کی حمایت سے جدوجہد جاری رکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ شیخ عبداللہٰ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس بھارتی بندوبست میں رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنا چاہتی تھی، جس کا مقصد بادی النظر میں خودمختاری اور پھر مکمل آزادی تھا۔

اس وقت حریت کانفرنس کا اتحاد یا ادغام بھارتی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ گذشتہ برس وادی میں انتخابات میں ٹرن آؤٹ سات فیصد رہا جو تاریخ میں کم ترین ریکارڈ ہے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں کہ جو کشمیری ہندوستانی آئین کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد پر یقین رکھتے تھے اب مایوس ہو رہے ہیں۔ یہ نیشنل کانفرنس یعنی شیخ فارق عبداللٰہ، عمر عبداللٰہ اور محبوبہ مفتی کے لئے لمحہٗ فکر ہے۔ جبکہ حریت کانفرنس جو انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے کے لئے کامیابی کا موجب ہے۔ ایسے میں دونوں دھڑوں کا ادغام بھارتی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔

پاکستان اور ہندوستان کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے جتنے قریب 2004 میں تھے، اتنے ماضی میں کبھی نہیں تھے۔ متعدد کشمیری ماہرین کے مطابق اگر اٹل بہاری واجپائی 2004 کے انتخابات جیت جاتے تو قوی امکان تھا کہ اگلے چند سال میں مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لئے حل ہو چکا ہوتا۔ حالیہ پیش رفت گو ظاہری طور پر مخدوش صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ مگر اس شر میں سے خیر کا پہلو برآمد ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے واقعات کشمیر کے معاملات کو ایک مخصوص سمت میں لے کر جا رہے ہیں۔

خطے میں تیزی سے آنے والی تبدیلیاں ان واقعات کے لئے فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتی جار ہی ہیں۔ امریکہ کو افغانستان سے نکلنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگے امریکی انتخابات سے پہلے افغانستان سے باعزت انخلا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے پاکستان کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اسی لئے صدرٹرمپ اپنے ماضی کے رویے کے برعکس پاکستان کے بارے میں مثبت دکھائی دیتے ہیں۔ ان واقعات میں سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اہم اور متحرک دکھائی دیتے ہیں۔

آپ کو یاد ہو گا کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کا دورہ کیاتھا جس میں سعودی مہمان کا پرتپاک اور غیر روایتی استقبال کیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد شہزادہ سلمان نے ہندوستان کا دورہ کیا جہاں وزیراعظم نریندرمودی نے بھی پروٹوکول کے برعکس خود شہزادے کا استقبال کیا اور مجموعی طور پر یہ دورہ کافی کامیاب رہا۔

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھیں۔ یہ دورہ جو کہ سٹیٹ وزٹ نہیں تھا، اور نہ ہی امریکی محکمہ خارجہ کو اس دورے کی بھنک تھی، یہ وائٹ ہاؤس کی دعوت پر ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے وائٹ ہاؤس کو وزیراعظم عمران خان سے ملنے کے لئے قائل کیا۔ امریکی پروٹوکول کے مطابق یہ لیول چار کا دورہ تھا، جس میں میزبان ملک کی جانب سے کسی نے وزیراعظم کا استقبال نہیں کیا۔

پروٹوکول کی درجہ بندی کے برعکس، یہ دورہ مجموعی طور پر کافی کامیاب رہا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باضابطہ ملاقات سے پہلے ثالثی کی پیشکش کی اور کہا کہ وزیراعظم مودی نے بھی انہیں ثالثی کے لئے کہا ہے۔ بھارتی محکمہ خارجہ نے گو اس کی تردید کی لیکن وزیراعظم مودی نے اس پر ایک پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اسی اثنا میں ہندوستانی سرکار نے یک دم کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی ہے جس کے ردِعمل میں کشمیر ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں ہے۔ بعید نہیں کہ مقامی انتفادہ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو جائے۔ ایک موہوم سی امید اور امکان یہ ہے کہ شاید خطے میں کوئی تبدیلی لانے کے لئے لوہا گرم کیا جا رہا ہے۔

کشمیرکے حل کے حوالے سے کچھ باتیں ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ریاست کشمیر نہ صرف ان علاقوں پر مشتمل ہے جو اس وقت بھارت کے زیرِ انتظام ہیں، بلکہ اس میں پاکستانی آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں۔ مشرف واجپائی دور میں تین چار مختلف حل زیرغور تھے۔ ایک ممکنہ حل یہ بھی تھا کہ دریاؤں کے حساب سے خطے کو تقسیم کیا جائے۔ ایسی صورت میں بھارت کو کافی علاقے سے دستبردار ہونا پڑتا، جو ظاہر ہے کہ بھارت کو قبول نہیں۔

2004 میں دونوں ملک اس بات پر تقریباً متفق تھے کہ پوری ریاست کشمیر کو بیس سال کے لئے غیر فوجی علاقہ بنا کہ ایک مخصوص سطح کی خودمختاری دے دی جائے اور بیس سال بعد کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں۔ 2019 میں تصور کیجئے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اور پاکستان نے جن شرائط پر اپنا منجن بیچا ہو، ممکنہ طور پر ان میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور کشمیر کا تصفیہ شامل ہوں۔ ماضی میں کسی امریکی صدر نے یوں ثالثی کی پیشکش نہیں کی۔ تو ایسے میں امید کی جا سکتی ہے کہ کشمیری عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نمودار ہو۔

جیسا کہ عرض کیا ہے کہ یہ مسئلہ اب اتنا پرانا ہے اور اس پر اتنی جنگیں اور اتنی بات ہو چکی ہے کہ اب یہ اصولوں سے زیادہ ناک کا مسئلہ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ناک کٹوانے سے گردن کٹوانا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اب پاکستان اور ہندوستان دونوں اپنے اپنے کشمیر میں سے ایک انچ سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوں گے۔ کشمیر کی خودمختاری اور مشترکہ انتظام ہی وہ ممکنہ حل ہے جو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شاید اسی سے کشمیری عوام کی مشکلیں آسان ہوں۔ یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان اور نریندر مودی اس مسئلے کو کسی حد تک حل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تاریخ میں بلند مقام پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).