ہندوؤں کا ہندوستان


انسان چاہے عمر کے کسی بھی دور سے گزر رہا ہو۔ اسے اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کو دیکھ کر اپنے بچپن یا بیتے ہوئے دنوں کی کوئی بات ضرور یاد آ جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کا ماضی کسی نہ کسی صورت اس کے ساتھ محو سفر رہتا ہے۔ شاید ماضی کبھی گزرتا ہی نہیں بس ہم حال میں رہتے ہوئے۔ ماضی کی انگلی تھامے مستقبل کو محفوظ کرنے کی سعی لاحاصل میں سرگرداں اور پریشاں رہتے ہیں۔

ہمارا تعلق ہجرت کرکے پاکستان آنے والے خاندان سے ہے۔ اس لیے آباؤاجداد کے دیس کی کوئی خبر سیدھی کمان سے نکلے تیر کی طرح دل میں ترازو ہوتی ہے۔ آپ اسے المیہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ کہ گھر میں بڑی بیٹی ہونے کی وجہ سے اور دوسرے مشترکہ خاندانی نظام کی مہربانی سے ہمیں اپنے خاندان کی خصوصاً بزرگ خواتین جیسے کہ دادی، نانی، تائی، پھوپھی، پرانی خادمائیں جن کا درجہ کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ان سب کے ساتھ وقت گزارنا نصیب ہوا۔ اور مذکورہ تمام مستورات نے حسب توفیق ہماری تربیت میں اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ شامل کیا۔

بہرحال ننھیال اور ددھیال میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ قدر ”ہندوستان“ ہے۔ دادا یوں تو مرادآباد کے تھے۔ لیکن جانے ان کے ابا یعنی ہمارے پردادا کے من میں کیا سمائی کہ وہ کسولی پہاڑ پر جا بسے۔ اور یوں دادا کی قسمت میں یوسف زئی پٹھان خاتون آ گئیں۔ گویا مراد آباد کی شرافت اور پٹھان کی خرد دماغی کا عکس ہمارے ابا مرحوم میں خوب آ یا۔ ننھیال لکھنو کے نفاست پسندوں پر مشتمل تھا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ دنیا کے سارے بچوں کی طرح ہمیں بھی اپنی نانی سب پیاری تھیں۔

دوستو آپ لوگوں کو اگر بزرگوں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ہو تو آپ اس بات سے ضرور اتفاق بھی کریں کہ بزرگوں کا پسندیدہ موضوع ان کے بیتے ہوئے ایام ہوتے ہیں۔ اور اگر انھیں کوئی سننے والا مل جائے۔ تو کیا ہی بات ہے۔

ہمارا مسئلہ ہی سننے کا شوق ہے۔ دور حصول علم کے دوران گریجویشن کے فائنل میں نفسیات کی کلاس ہورہی تھی۔ اچانک پروفیسر صاحبہ نے سوال داغ دیا۔ ”بتائیں ایک اچھے ماہر نفسیات میں کیا خوبی ہونی چاہیے؟“ مختلف طالب علموں نے مختلف جوابات دیے۔ ہماری خواہش تو یہ تھی جان بچ جائے اور ہمیں جواب دینا ہی نہ پڑے۔ اس لیے ہم بڑی دلچسپی سے سب کے جوابات سن کر کلاس ختم ہونے کے انتظار میں خاموش بیٹھے ہی رہے۔ مگر آفرین ہو اساتذہ کی شکاری نظروں پر۔ انھوں نے اپنی عقابی نگاہیں ہم پر ڈالیں۔ اور ”صبا“ کہا۔ اپنی سیٹ سے کھڑے ہوکر نہ جانے دماغ میں کیا سمائی کہ ہم کہہ بیٹھے: ”مس اسے ایک اچھا سامع ہونا چاہیے۔“

میڈم کی آنکھوں میں جیسے بجلیاں سی کوند گئیں۔ اس کے بعد کے واقعات کی طویل فہرست ہے۔ بس اتنا اعزاز ضرور نصیب ہوا کہ ہمارا شمار اپنی پروفیسر کی ذاتی دوستوں میں ہوا۔

بس یہی ایک عادت تھی۔ جس بزرگ کے ہاتھ ہم لگتے بس جی قصائص شروع اور سچ تو یہ ہے کہ ہمیں یہ قصہ گوئی بہت پسند آتی تھی۔ اور سارے قصے یادداشت میں آج بھی ایسے محفوظ ہیں گویا کسی کمپیوٹر کی میموری ہو۔ الحمدللہ ہماری بزرگ خواتین نے عمریں بھی خوب لمبی پائیں۔ اس لیے یادداشتوں کا ایک خزانہ چھپا تھا ان کے سینوں میں اور ان یادداشتوں کا محور ہوتا تھا ہندوستان!

آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے قصوں کے رومانس میں عرصہ دراز تک مبتلا رہے۔

والد کی جنم بھومی کسولی تھی۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ جب انہیں کسولی اور بمبئی کا ویزہ ملا تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھیں۔ جن لوگوں نے انڈیا کاسفر کیا ہے انہیں اندازہ ہوگا کہ اپنی مرضی کے شہروں کے ویزے لگوانا وہ بھی انڈین سفارت خانے سے ہمیشہ سے پاکستانیوں کے لیے جوئے شیر لانے سے کم کا مرحلہ نہیں ہوتا۔ ان کے پاس کسولی، مراد آباد، آگرہ، لکھنو، اجمیر، بمبئی ہر جگہ کے ایسے دلکش قصے تھے کہ سنتے جائیں سر دھنتے جائیں۔

یہ قصہ خوانی کا عمل بام عروج پر پہنچ جایا کرتا جب ہم اپنی نانی کے ہمراہ ہوتے کیونکہ وہ ہماری بہترین دوست بھی تھیں۔ شاعری، کلاسیکل موسیقی، اردوادب سے لگاؤ رکھنے والی شخصیت تھیں۔ حضرت امیر خسرو کا کلام انہیں ازبر تھا۔ اوراپنا یہ سارا ورثہ انہوں نے ہمیں منتقل کیا۔ اورہم اسے آج تک نبھا رہے ہیں۔ وہ مرقع لکھنو تھیں: انداز، اطوار، حسن وجمال، تہذیب، شائستگی، رسم ورواج ہر زاویے سے لکھنو چھلکا پڑتاتھا۔ اور ان کے قصے بڑا امام باڑہ، ساتویں محرم کا شاہی جلوس۔

اف کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں۔

ان قصوں کے درمیان سارا بچپن اور لڑکپن گزرا اور سچ کہیں تو ہم ہندوستان کے رومانس میں مبتلا رہے۔ ایک ایک کرکے سارے رشتے ہاتھوں سے پھسلتے چلے گئے۔ سب نے ہی شہر خموشاں جا بسایا

مجھے ہر طرح سے جو راس تھے
وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

لیکن آج جب میری نظر کے سامنے ہندوستان کا جو چہرہ آتاہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ کون سا ہندوستان ہے۔ جہاں گائے کی احترام میں انسان قتل ہو جاتاہے۔ جہاں اپنے ہی ملک کے ریٹائرڈ آرمی افسر کو تشدد کر کے بیوی کے ساتھ ایک ہجوم زندہ جلا دیتا ہے۔ جہاں ”جے شری رام“ کا نعرہ نہ لگانے والے کو قبرستان کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ جہاں پرتشدد ہجوم دلوں میں نفرت کا الاؤ لیے ہاتھ میں ترشول اٹھائے گھومتے ہیں اور پندرہ برس کے بچے کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ جہاں مقبوضہ کشمیر میں فوجی پلٹنیں اتاری جاتی ہیں۔ ظلم وبربریت کی نئی تاریخ رقم کی جاتی ہے۔ لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جہاں ایک قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جہاں نفرت کا یہ عالم ہے کہ جتھے نہتے انسانوں کو اتنا مارتے ہیں کہ وہ مر جائیں۔

اس وقت میرے سامنے ہندوستان نہیں یہ تو کوئی اور ہی جگہ ہے۔ یہ شاید صرف نریندرا مودی کا، را، آ ر ایس ایس، بجرنگ دل اور نہ جانے کون کون سی نسل پرست ہندو تنظیموں کا بھارت ہے۔ جہاں کسی اور مذہب کو، کسی اور زبان کو، کسی اور اقلیت کے بنیادی حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں دنیا کے کئی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا اور ایشیائی لوگوں کو زیادہ تر انڈین سمجھا جاتا ہے ہمارے ساتھ بھی بارہا ایسا ہوا کہ غیر ملکی ”آپ انڈین ہیں؟“ کا سوال کرتا اور ہم کبھی وضاحت کر دیتے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اور کبھی تردید پر اتنی توجہ نہیں دیتے۔

لیکن آج یہ تحریر لکھتے ہوئے ہمیں شدت سے یہ احساس ضرور ہو رہا ہے۔ کہ ایک بار سوال تو کریں کہ اے بھارت واسیو ذرا بتاؤ تو سہی مسلمانوں کے علاوہ تمہارا اثاثہ کیا ہے؟ دلی کا شاہی قلعہ، آگرہ کا تاج محل، اجمیر شریف، حاجی علی کی درگاہ، قطب مینار، مرزا غالب سے لے کر ڈاکٹر بشیر بدرتک۔

ہمارے روحانی استاد جن سے ہم جیسے نہ جانے کتنے جہلا نے زندگی جینے کا ہنر سیکھا علامہ سید آ یت اللہ عقیل الغروی، بتائیے اس سب کے علاوہ آپ کا اثاثہ اور کیاہے۔ پاکستان دشمنی میں یہ ہندوستان کو کون سے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ وہ سیکیولر ازم کہاں گیا۔ جس کی دہائیاں مہاتما گاندھی نے دیں۔ یہ کون سے راستے پر آپ اپنے ملک کو لے گئے ہیں۔ جہاں ہندوستان صرف ہندوؤں کا رہ گیا ہے۔ اچھا ہی ہوا جو ہمارے سارے اجداد رخصت ہوئے ورنہ اس ہندوستان کو دیکھ کر نہ جانے ان کے شکستہ دلوں پر کیا گزرتی۔

نفرت اور دشمنی کے اس کھیل کو یہیں روک دیجئے! کہیں ایسا نہ ہو کہ ہندوستان اپنی نفرت کی وجہ سے انسانوں کے دینے کے قابل ہی نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).