جوائے لینڈ۔ استغفراللہ


ہم جوائے لینڈ دیکھ کر آئے تو کافی پر جوش تھے۔ فیس بک پر اسٹیٹس لگایا۔

”نوجوانی میں سینما میں ارمان اور دیگر فلمیں دیکھی تھیں۔ آج نوجوان بیٹے الہام کے ساتھ سینما میں جوائے لینڈ دیکھی۔ کمال پیشکش، ایسی فطری اداکاری اور مناظر، جانے کون اداکار، اور ہدایت کار۔ ہم تو بس ثروت گیلانی، ثانیہ سعید اور سلمان پیرزادہ کو ہی جانتے ہیں۔ میرے بیٹے الہام کو بھی شاباش جو اماں کو سینما لے گیا۔“

کسی کا کمنٹ آیا۔
استغفراللہ

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کی تہذیب میں بچے ماؤں سے چھپ کر سینما جاتے ہیں ماں کو لے کر نہیں جاتے ۔ گھر کی بیٹی اگر چچا، ماموں، کزن کی کوئی انہونی بات ماں کو بتانا چاہے تو آنکھیں کھول، لب بند اور ایک لمبی شی ششش۔

استغفراللہ۔

خیر ذکر ہو رہا تھا جوائے لینڈ کا۔ ہمیں تو اس فلم میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا لیکن یہ فلم کافی متنازع رہی۔ یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کو کانز فیسٹول میں ایوارڈ دیا گیا۔ مگر پنجاب میں بین کیا گیا، بعد میں وزیراعظم کی ہدایت پر قائم کی گئی سینسر بورڈ کی جائزہ کمیٹی نے اسے ڈرتے ڈرتے ریلیز کے لیے کلیئر تو کر دیا۔ لیکن جگہ جگہ بلا وجہ، بے موقع قینچی چلنے کی وجہ سے فلم کا بیڑا غرق تو ہوا ہے، مگر پھر بھی پاکستان میں بغیر گلیمر کے ایسی فلم بنانا لائق تحسین ہے۔

بیک وقت تین سلگتے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

تنہائی کے عذاب سے دو چار ساٹھ پینسٹھ سالہ بیوہ خاتون کوئی نا کوئی پکوان دینے کے بہانے اشفاق صاحب کے گھر آ جاتی ہیں۔ اشفاق صاحب اسی سال کے بزرگ وہیل چئیر پر بیٹھے رہتے ہیں۔ گھر کی دونوں بہویں رات کو جوائے لینڈ کا پروگرام بناتی ہیں تو خالہ کو ان کا خیال رکھنے کی خاطر گھر پر چھوڑ جاتی ہیں۔ اشفاق صاحب کا کرسی پر بیٹھے بیٹھے پیشاب نکل جا تا ہے۔ تب خالہ کو ان کی اذیت اور تنہائی کا شدت سے خیال ہو تا ہے وہ رات وہیں رک جاتی ہیں۔ خالہ کا بیٹا اشفاق صاحب کے گھر آ کر اپنی ماں کو ڈانٹ ڈپٹ اور زمانہ کیا کہے گا کی آڑ میں اس کی کردار کشی کرتا ہے۔

اس مرحلے پر دونوں بزرگ یہ چاہتے ہوئے بھی کہ ان دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، خاموش رہتے ہیں۔ اس المیے کا اظہار پانچ منٹ کے منظر میں اپنا پورا تاثر پیش کر نے میں کامیاب رہا۔

حیدر، جس کی بیوی نے شادی سے پہلے ہی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اسے نوکری کرنا پسند ہے، حیدر کی نوکری لگتے ہی سب کو لگتا ہے کہ اب اسے اپنی جیٹھانی کا گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔

حیدر اپنے دوست کی معرفت بیبا میڈم (تھرڈ جینڈر) کے پاس آتا ہے، جو ڈانس انسٹرکٹر ہے۔ مرکزی ڈانس بیبا کا ہے۔ حیدر کا کام دوسرے لڑکوں کی معاونت میں رقص کرنا ہے حیدر کی اس طرح کی آمدنی پر گھر میں پہلے تو واویلا، لیکن جب ماہانہ چالیس ہزار کا دلاسا دیا جا تا ہے تو سب کچھ نارمل ہو جا تا ہے۔

بیبا ایک خوب صورت با صلاحیت ڈانسر ہے۔ اسے تیسری جنس ہو نے کے ناتے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ ایک سین میں بس میں خواتین کے ڈبے بیٹھی ایک خاتون اپنے برابر میں بیٹھا دیکھ کر اسے کہتی ہے کہ وہ مردوں کے ڈبے میں جا کر بیٹھے۔ تب حیدر ان دونوں کے درمیان آ کر بیٹھ جا تا ہے۔ اب وہ خاتون معترض نہیں۔ بیبا اور حیدر ہنستے ہیں۔

حیدر کا رویہ بیبا کے ساتھ اچھا ہے۔ وہ اس کا احترام کرتا ہے۔ بیبا حیدر کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔ بیبا کہتی ہے وہ آپریشن کے لیے پیسے جوڑ رہی ہے، لڑکی بننا چاہتی ہے۔

حیدر کی بیوی جو اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہے، ماں بننے کی خوش خبری کے ساتھ روک ٹوک نے اسے شدید ڈپریشن کا شکار کر دیا ہے۔ وہ گھر سے بھاگ جاتی ہے لیکن پھر واپس آ جاتی ہے۔ کموڈ کے واٹر ٹینک میں چھپائے گئے محلول کو پی کر خود کشی کر لیتی ہے۔

اس فلم میں سماجی مسائل کی جھلک ہے۔ دستیاب وسائل اور بے پناہ صلاحیت کے ساتھ استطاعت بھر جتنا ہو سکتا تھا اس سے زیادہ کوشش کی گئی۔ ہدایت کار اور پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ آپ بھی اپنے گھر کے افراد کے ساتھ یہ مووی دیکھ سکتے ہیں میں کہہ رہی ہوں نہ اس میں ایسا کچھ نہیں۔

ایک واقعہ یاد آیا۔

ٹی وی پر ہندی فلم دیکھ رہی تھی، الہام سات یا آٹھ سال کا ہو گا وہ بھی بیٹھا ہوا تھا۔ سہاگ رات کا سین آیا، ہیرو نے دلہن کا گھونگھٹ الٹا، ہم بد حواسی میں ریموٹ کے لیے ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگے۔ بیڈ کے نیچے جھانکا۔

الہام ساتھ ساتھ دلاسا دیے جا رہا تھا۔ امی کچھ نہیں ہے، امی کچھ نہیں ہے۔
ہم نے ڈرتے ڈرتے اسکرین دیکھی تو دوسرا منظر تھا، ہم نے سکون کا سانس لیا۔
میں کہہ رہا تھا نہ کچھ نہیں ہے۔ الہام بولا۔
استغفراللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments