اکبر معصوم کہاں چلا گیا؟


اکبر معصوم چلا گیا۔ کہاں گیا؟ جہاں سب جاتے ہیں۔آج ، آج نہیں تو کل، سب کو جانا ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہمارے ساتھ کے لوگ چلے گئے۔ موت کا چرخا بڑا بے رحم ہے۔ یہ زندگی کے دھاگے سے چلتا ہے۔ عجیب کھیل ہے۔ جان بوئیں اور موت کاٹیں۔سو جینا مرنا عجیب نہیں لگتا۔ قیمت اس بات کی پڑتی ہے کہ کوئی جیا تو کیسے جیا۔ جس طرح اکبر معصوم نے جیون گزارا ویسا جینا کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ اٹھاون سال عمر پائی۔ 1961ء میں، دنیا میں آیا۔ کچھ آزار پیدائشی تھے۔ 1989ء میں ایک ایسے مرض کی تشخیص ہوئی جو لاعلاج تھا۔ اس میں پٹھے کام نہیں کرتے۔ اس کے پانچ سال بعد ٹی۔بی کا شکار ہو گیا۔ بولنے، سننے، دیکھنے، چکھنے کی حسیں جاتی رہیں۔ بدن بیماریوں کا گھر بن گیا اور اکبر معصوم نے خیال کی پناہ حاصل کی۔ دل نے اکبر کا ساتھ دیا۔ اکبر نے بھی اور کسی کی مانی یانہ مانی دل کی بہت مانی۔ دل کی اطاعت میں دو شعری مجموعے” اور کہاں تک جانا ہے“ اور ”بے ساختہ“ شعر سے محبت کرنے والوں کی نذر کیے۔

اور کہاں تک جانا ہے“ بڑا چو مکھا نام ہے۔ پہلا خیال تو زندگی کی ان مشکلات کی طرف جاتا ہے کہ انھیں اور کتناجھیلنا ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔ دوسرا تصور ہمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میں چل رہا ہوں۔ آؤ، جہاں تک چل سکتے ہو، چلو۔ تھکا نہیں۔ تیسرا استفہام ہے۔ یہاں تک یا اس کے بعد بھی کوئی منزل ہے۔ چوتھا کھونٹ وہ بے زاری ہے جب راہی تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ اکبر معصوم کی شاعری دکھ کی دین ہے۔ رائج تنقیدی زبان میں آپ اپنی مرضی سے اس کا نام رکھ سکتے ہیں۔ نیا کیا، پرانے ناموں سے کوئی نام، چن لیں۔ داخلی، خارجی، نفسیاتی، عمرانی، رومانی آخر کتنے نام ہیں جن سے اب تک کام چلایا جاتا رہا ہے۔ اپنے تئیں مجھے یہ شاعری ایک دکھیارے کی زندگی محسوس ہوتی ہے۔ عجیب دکھیارا ہے جس کے کرب میں کربناکی اور نشاط مل جل گئے ہیں۔

اب خاک کی خوشبو سے رہا ہو نہیں سکتا

کچھ خواب ہیں میں جن سے جُدا ہو نہیں سکتا

اک یاد ہے تیری جو سنبھالی نہیں جاتی

وہ قرض لیا ہے جو ادا ہو نہیں سکتا

میں نے کبھی آواز کو چھو کر نہیں دیکھا

کیا تیرا بدن تیری صدا ہو نہیں سکتا

جو دکھ مجھے درپیش ہے اُس دکھ کا مداوا

ہو جائے مگر تیرے سِوا ہو نہیں سکتا

میں کتنا تماشائے گِل و آب میں خوش ہوں

لیکن یہ تماشا بھی سدا ہو نہیں سکتا

دیکھنا یہ ہے کہ جب شاعری ہر دل پر ایک طرح سے نہیں اترتی پھر شاعری کے بارے میں تنقیدی زبان ایک جیسی کیوں ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جو ہر اس تنقیدی کتاب کے پڑھنے کے بعد ذہن میں آتا ہے جو شاعری سے متعلق ہو۔ خیر یہ الگ موضوع ہے۔ اکبر نے غزل کی رائج پابندیوں میں رہ کے اپنا آپ بیان کیا۔ یہ غزلیں پڑھتے ہوئے دھیان اس طرف جاتا ہے جیسے کوئی اپنے دل کے ساتھ باتیں کر رہا ہو۔ روٹھنے اور منانے کے چاؤ پورے کر رہا ہو۔ عقل سے جذبے کا میل کر رہا ہو۔ ایسی یک سوئی جسے مراقبے کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ ایک سادھو جو اپنی یاد میں اپنے محبوب کے چہرے کی تلاوت کر رہا ہے۔ اس تلاوت نے اُس کے احساس میں عجیب نو ع کی بیداری پیدا کر دی ہے۔ اُسے زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کر دیا ہے۔ وہ دنیا کو دیکھتا ہے مگر اُس نظر سے نہیں جن نظروں سے ہم دیکھتے ہیں۔ ہم تو گزرتے ہیں، دیکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ مگر جنہیں لگن لگی ہوتی ہے وہ انھیں عجیب چیزوں پر اکساتی ہے۔ وہ کبھی دھوپ سے چاندنی بناتے ہیں اور کبھی آنسوؤں سے ہنسی ۔ ایک دھوپ چھاؤں کا تماشا اُن کے وجود میں گھر کر لیتا ہے۔

دھوپ سے چاندنی بناتا ہوں

آنسوؤں سے ہنسی بناتا ہوں

رات کی کھینچتا ہوں تصویریں

چاند سے شاعری بناتا ہوں

اور اِس ہجر کے سمندر میں

وصل کی جل پری بناتا ہوں

کر رہا ہوں میں ایک پھول پہ کام

روز اک پنکھڑی بناتا ہوں

میں وہ پاگل ہوں، جاتے لمحے سے

آنے والی صدی بناتا ہوں

پوچھتے کیا ہو اپنے آپ کو میں

روز ہی آدمی بناتا ہوں

مجھ سے شکوہ تو ایسے کرتے ہو

جیسے، میں زندگی بناتا ہوں

برسوں پہلے بنا رہا تھا جو شے

میں تو اب تک وہی بناتا ہوں

اس غزل میں خوشی اور غم کو کس طرح ملا جلا دیا گیا ہے۔ اس میں شاعر فطری مظاہر کے متوازی فکر کا چراغ لیے شاعرانہ عمل کی طرف اشارے کر رہا ہے۔ اشارے کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ شاعری کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ ہاں اور نہیں کا کھیل ہے۔ اور یہ ناٹک صاحبانِ احساس کے علاوہ کھیلا نہیں جا سکتا۔ اکبر معصوم کا رویہ شعر کے بارے میں بہت حساس ہے۔ اُس نے دیباچے میں اپنے نظریہ شعر کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں اس کی شاعری کا متن اُن باتوں کی گواہی دے رہا ہے۔ شاعری اور پھر غزل کی شاعری دونوں مشکل کام ہیں۔ ایک طرف اتنی پھیلی ہوئی روایت میں اپنے آپ کو دوہرانے سے بچانا اور دوسرا آج کی صورتِ حال سے مکالمے کی سبیل پیدا کرنا۔ اقبال نے بال جبریل کی غزلوں میں یہ دکھادیا کہ مجھ سے پہلے بے شبہ ولی، میر اور غالب غزل کی صنف میں اپنے دستخط ثبت کر چکے ہیں اس کے باوجود غزل میں مختلف انداز سے بات کی جا سکتی ہے۔ ان غزلوں کا انداز اور ان کا ڈکشن نظم کے قریب ہے۔ بات کرنے کا انداز قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔یہ اسی تخلیقی طاقت کی دین ہے جس کا راز اقبال نے اپنی نظم غالب میں بتا دیا تھا۔

لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں

ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں

پتہ چلا لطف گویائی کے لیے تخیل کا فکر کے ساتھ ہم نشیں ہونا ضروری ہے۔ ایسی ہم نشینی سے اکبر معصوم نے کام چلایا۔ اُس کی شاعری کے موضوعات اقبال سے نہیں ملتے لیکن ایک دل درمند قدم قدم پر صدائیں دیتا نظر۔

کچھ اتنی تیز تر تھی تری یاد کی ہوا

اک بار تو یہ شعلہ تن کانپنے لگا

تجھے خبر ہی نہیں ہے اے چشم بے گریہ

کہ تو نے کیسا شرابور کر دیا ہے مجھے

یاد کے قیدیوں کے لیے ایسے اشعار بہت معنی رکھتے ہیں۔ جس نے کسی کی یاد کے آسرے زندگی نہیں گزاری وہ اس کی قدر نہیں جانتا۔ وہ کہہ سکتا ہے اور اسے کہنا بھی چاہیے کہ اس طرح کی شاعری میں کیاہے اور اس کیا کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ شاعری میں تعین قدر کے لیے ایسی کوئی مشین اب تک وجود میں نہیں آئی کہ آدمی ٹھیک ٹھیک بتا سکے کہ کس شعر میں کتنی کیفیتہے۔ موزونی جانچنے کے قاعدے موجود ہیں مگر تاثیر جاننے کا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا۔ اگر آپ کا احساس شاعر کے احساس سے مل گیا تو روشنی ورنہ یہی جملہ کہ اس شعر میں کیا ہے۔ غالب جیسے مشکل پسند شاعر کو مومن کا یہ شعر بہت پسند تھا۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

یہ نثرکے بالکل قریب ہے مگر نثر نہیں۔ ایک لفظ بدل دیں تو سارا فریم بدل جائے گا۔ اس کا حسن اسی شکل میں قائم ہے۔ آخر کوئی تو ایسا جادو ہے جس کے تحت ایک لفظ کی تبدیلی اتنی گراں بن جاتی ہے۔ لفظ کے اسی سلیقے کا اظہار اکبر معصوم کی غزلوں میں ملتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ لفظ کے استعمال میں کفایت کسے کہتے ہیں۔ اپنی واردات کے موافق اُن کا مصرع گواہ بنتا نظر آتا ہے۔ شاعری میں آنچ کی کمی یا زیادتی کچھ کا کچھ کر دیتی ہے۔ ان غزلوں میں جذبہ اپنی پوری تطہیر کے ساتھ موجود ہے۔ اور کہاں تک جانا ہے میں 72غزلیں موجود ہیں۔ اس ہندسے کا انتخاب بلاالتزام نہیں۔ بہتر سچ کی گواہی کے پہلے پہلے گواہ ہیں۔ شاعری سچ کے علاوہ ہوتی بھی کیا ہے۔ یہ سچ کا میوہ ہے۔ جو صابر درختوں پر لگتا ہے۔ غزل کی صنف بڑی طرفگی کی حامل ہے۔ اس کی آسانی ہی اس کی بڑی مشکل ہے۔ غزل کے قواعد تو موجود ہیں جنہیں ہم قافیہ، ردیف، مطلع، مقطع کے ناموں سے جانتے ہیں۔ مگر ان کے اندر رہ کر اپنا مدعا زبان پر لانا مشکل کام ہے۔ اس مشکل کو جو آسان بنا لیتے ہیں اُنہی کا نام چلتا ہے۔ وہی یاد رکھے جاتے ہیں۔ وہ جو اجنبی راہزنوں کا شکار ہو گئے۔ ایسے مسافر اب کہاں ملتے ہیں۔ ایک جگہ ایسی ہے جہاں یہ سادھو سنت ملتے ہیں اور وہ شاعری کی کتاب ہے جن میں آپ ان کی باتیں سن سکتے ہیں۔

ایسا ایک مقام ہو جس میں دِل جیسی ویرانی ہو

یادوں جیسی تیز ہوا ہو درد سے گہرا پانی ہو

ایک ستارہ روشن ہو جو کبھی نہ بجھنے والا ہو

رستہ جانا پہچانا ہو رات بہت انجانی ہو

وہ اِک پل جو بیت گیا اُس میں ہی رہیں تو اچھا ہے

کیا معلوم جو پل آئے وہ فانی ہو، لافانی ہو

منظر دیکھنے والا ہو، پر کوئی نہ دیکھنے والا ہو

کوئی نہ دیکھنے والا ہو اور دور تلک حیرانی ہو

ایک عجیب سماں ہو جیسے شعر منیر نیازی کا

ایک طرف آبادی ہو اور ایک طرف ویرانی ہو

 یہ بھی پڑھیئے

اکبر معصوم کی موت: اردو شاعری کے ایک عہد کا اختتام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).