بلوچستان عوامی پارٹی خیبر پختونخوا اسمبلی کا حصہ کیسے بنی؟


بلوچستان عوامی پارٹی

بلوچستان میں راتوں رات وجود میں آنے والی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بغیر کسی تنظیمی ڈھانچے کے خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی داخل ہو گئی ہے۔

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں سے منتخب تین اراکین اسمبلی نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد اس جماعت کو صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لیے مختص ایک نشست بھی مل گئی ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اب بی اے پی کے ارکان کی تعداد چار ہو گئی ہے۔

بی اے پی میں شامل ہونے والے قبائلی علاقوں کے نو منتخب اراکین کوئی اور نہیں بلکہ معروف قبائلی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل آفریدی کے بیٹے بلاول آفریدی ، بھتیجے شفیق شیر آفریدی اور ضلع مہمند سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی عباس الرحمان ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کو یہ تین اراکین اسمبلی بغیر کسی کوشش اور بغیر کسی جدوجہد کے ملے ہیں۔

قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں نہ تو بی اے پی کے کوئی امیدوار میدان میں اترے اور نا ہی اس جماعت کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ خیبرپختونخوا میں وجود رکھتا ہے لیکن اس جماعت کو بیٹھے بٹھائے تین اراکین اسمبلی مل گئے۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے بی اے پی کو واضح برتری

بلوچستان: اتحادی حکومت گرانے والی جماعتیں کامیاب

قبائلی علاقوں مں انتخابات: تحریک انصاف کو سبقت

ایسی اطلاعات ہیں کہ الحاج شاہ جی گل آفریدی کی کوشش تھی کہ قبائلی علاقوں سے منتخب آزاد اراکین علیحدہ گروپ کے طور پر اسمبلی میں بیٹھیں لیکن انھیں اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

قبائلی علاقوں سے منتخب دو اراکین غزن جمال اور شفیق احمد نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا جبکہ ایک رکن میر قلم خان نے آزاد حیثیت سے ایوان میں بیٹھنے کو ترجیح دی ہے۔ شمالی وزیرستان سے منتخب میر قلم خان کو بظاہر پختون تحفظ موومنٹ کے ہم خیال افراد کی حمایت حاصل ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ آزاد ارارکین سے انھوں نے اور دیگر جماعتوں نے رابطے کیے تھے لیکن اس وقت آزاد اراکین اپنا ہی گروپ بنانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کسی گروپ کے ساتھ اتحاد کے حق میں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسمبلی میں ان کے اراکین کی تعداد 91 ہے اور دو خواتین کے لیے مختص نشستں ملنے کی بعد ان کے اراکین کی تعداد 93 ہو جائے گی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان عوامی پارٹی خیبر پختونخوا میں داخل ہونے کی کوشش میں تھی یا الحاج شاہ جی گل گروپ کو ایسی جماعت کی ضرورت تھی جس کے زریعے وہ ایوان میں یا صوبائی حکومت میں کوئی مقام حاصل کر سکیں۔

جام کمال

جام کمال کو بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی پانچ دیگر جماعتوں نے وزیر اعلیٰ نامزد کیا تھا

بی اے پی بلوچستان کی سطح پر گزشتہ سال ہی قائم کی گئی اور اس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بیشتر ایسے اراکین شامل ہوئے تھے جو اپنی اپنی نشستیں آسانی سے جیت جاتے تھے۔ یہی اراکین اگر مسلم لیگ نون میں شامل ہو جاتے تو بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو جاتی اور اگر پیپلز پارٹی میں چلے جائیں تو پھر حکومت پیپلز پارٹی کی قائم ہو جاتی ہے۔

ان میں ایسے اراکین بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو پکے مسلم لیگی کہلواتے ہیں لیکن اب بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو کر ان پر بھی کسی حد تک قوم پرستی کی چھاپ لگ گئی ہے۔

الحاج شاہ جی گل آفریدی سابق دور حکومت میں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے لیے سب سے زیادہ متحرک تھے۔ انھوں نے قبائلی علاقوں سے منتخب اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کے متعدد اجلاس منعقد کیے جس میں انضمام کے لیے راہ ہموار کی گئی تھی۔

بظاہر اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان اراکین نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کیوں اختیار کی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی اے پی چونکہ مرکز اور خیبر پختونخوا میں حکومت کی اتحادی ہے اس لیے یہ اراکین اپنے علاقوں کے لیے حکومت سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز حاصل کر سکیں گے اور یہ ممکن ہے کہ حکومت میں ایک آدھ وزارت بھی مل جائے۔

معروف تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف بی اے پی نے کبھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس جماعت کا اس صوبے میں کوئی وجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کی ایک وجہ تو یہ بتائی گئی ہے کہ الحاج شاہ جی گل آفریدی کے امیدواروں نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست دی تھی اس لیے اب تحریک انصاف میں شمولیت ان کے لیے مشکل فیصلہ تھا۔

رحیم اللہ ئوسفزیی نے بتایا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بی اے پی میں شمولیت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان الحاج گروپ کی کوشش ہے کہ ان کے علاقے میں ترقیاتی کام ہوں اور فنڈز جاری ہوں اور وہ حکمران جماعت کے ساتھ ہوں۔

انھوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے بھی پی ٹی آئی حکومت اور شاہ جی گل آفریدی کے درمیان اختلافات تھے اور انتخابات کے دوران دونوں جانب سے امیدوار مقابلے میں تھے جس کی وجہ سے یہ آزاد نو منتخب اراکین پی ٹی آئی حکومت کے قریب نہیں آ سکے۔

خیبر پختونخوا یا مرکزی سطح کی دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت نہ کرنے کی ایک وجہ رحیم اللہ یوسف زئی نے یہ بتائی ہے کہ الحاج گروپ کے لیے حزب اختلاف کی کوئی بھی جماعت ترجیح نہیں تھی اور ان کی خواہش تھی کہ حکومت میں شامل ہوا جائے۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے اور حالیہ انتخابات میں ان کے پانچ اراکین کامیاب ہوئے ہیں اس لیے اس گروپ کو کوئی وزارت یا مشاورت ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے بی اے پی کا انتخاب کیا گیا جس کی قیادت وزیر اعلی بلوچستان جام کمال کر رہے ہیں اور وہ مرکز اور بلوچستان میں حکومت کے اتحادی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان قبائلی اراکین نے بڑی گیم کھیلی ہے، پی ٹی آئی کی منتیں بھی نہیں کرنی پڑیں اور بذریعہ جام کمال حکمران اتحاد کا حصہ بھی بن گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp