رادھا کمار کی بی بی سی کے لیے خصوصی تحریر: ’انڈین جمہوریت کا سیاہ دن‘


آرٹیکل 370 کے خاتمے پر احتجاج

پانچ اگست 2019 کا صدارتی فرمان اور جموں اور کشمیر کی تنظیم نو کے مسودۂ قانون کو جس طرح سے پارلیمان پر ٹھونسا گیا وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور ہمارے دستور کی کئی شقوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

یہ میں کیوں کہہ رہی ہوں؟

عوام کی امنگیں کسی بھی جمہوریت کی طرح ہماری جمہوریت اور آئین کا بنیادی عنصر ہے۔ یہ فیصلہ ریاست کے لوگوں پر سکیورٹی سے لے کر ان کے روزگار پر وسیع اور گہرے اثرات مرتب کرے گا، مگر فیصلہ کرتے وقت ان کی مرضی نہیں پوچھی گئی، بلکہ وادی میں مزید ہزاروں فوجیوں کی ہنگامی طور پر تعیناتی کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ احتجاج کی جسارت نہ کی جائے۔

معمول کے مطابق تو اتنی بڑی اور ہمہ جہتی آئینی ترمیم کے لیے مروجہ جمہوری طریقہ اپنایا جانا چاہیے تھا، مسودہ مرکز اور ریاست میں منتخب حکومت کی مشاورت سے تیار کیا جانا چاہیے تھا، پھر اسے مرکزی اور ریاستی اسمبلیوں میں پیش کیا جانا چاہیے تھا، جہاں مقررہ وقت تک اس پر بحث ہونی چاہیے تھی تاکہ عوامی نمائندے لوگوں کی ترجمانی کرتے اور عوام اس کے مضمرات پر غور کرتے۔

تب ہی اسے قانون سازی کے لیے اسمبلی کے سامنے رائے شماری کے لیے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔

تاہم اس معاملے میں ہر اصول بالائے طاق رکھ دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر پر نحوست کے بادل!

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

محبوبہ مفتی:’پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے‘

صدارتی فرمان نے آرٹیکل 370 کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس میں کوئی بھی ترمیم ریاست کی آئین ساز اسمبلی ہی کر سکتی ہے، جسے چھ سال سے بھی زیادہ پہلے تحلیل کر دیا گیا تھا۔

اس کے بجائے صدر نے حکم دیا ہے کہ اس معاملے کو قانون ساز اسمبلی لے جایا جائے۔ ریاست میں صدر راج ہونے کی وجہ سے قانون ساز اسمبلی بھی نہیں ہے۔

حکمراں جماعت کے ترجمان کے مطابق صدارتی حکم کے تحت گورنر اسمبلی کا نعم البدل ہو سکتا ہے۔ مگر قانون سازوں کا انتخاب لوگ کرتے ہیں، جبکہ گورنر کا نہیں، اس کا تقرر تو صدر کرتا ہے اور وہ کشمیری نہیں ہے۔

وہ جموں اور کشمیر کے لوگوں کی نمائندگی نہ کرتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔

اسی طرح مرکزی حکومت نے جوں اور کشمیر کی تنظیم نو سے متعلق مسودۂ قانون کا نوٹس بھی نہیں دیا۔ اسے پارلیمان میں بحث کے لیے بھی نہیں رکھا گیا، اگرچہ ایوانِ زیریں سے منظوری سے قبل ایوانِ بالا نے اس کی منظوری دی تھی مگر بہت ہی کم بحث کے بعد۔ یہ اس جمہوری اصول سے روگردانی ہے جس کے تحت کسی بھی مسودۂ قانون کے نامزد حکام کے ہاتھوں نفاذ سے پہلے منتخب نمائندوں سے منظوری لازمی ہے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے پر اظہارِ مسرت

مسودۂ قانون پیس کرنے کے لیے وزیر داخلہ کے جواز پر بھی اعتراضات اٹھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کا جموں و کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن یعنی معاہدۂ الحاق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر آرٹیکل 370 اس معاہدے کی شرائط کو، مثلاً یہ کہ دفاع، خارجہ اور مواصلات کے سوال تمام فیصلے ریاستی حکومت کرے گی، انڈین دستور کا حصہ بناتا ہے۔

اگر ان شرائط کو منسوخ کر دیا جائے تو کیا اس سے الحاق پر اعتراضات کا ایک نیا سلسلہ شروع نہیں ہوگا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کو تو آئین سے نہیں نکالا گیا ہے، مگر بعض لوگ اتنے ہی شد مد سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ الحاق کی دستاویز میں موجود نکات پر مبنی آئینی شقوں سے چھیڑچھاڑ اس معاہدے اور دستور دونوں کی خلاف ورزی ہے۔

میڈیا پر زیادہ تر اینکرز نے ان نکات کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا ہے کہ یہ دونوں فیصلے انڈیا کو اس قابل بنا دیں گے کہ وہ 70 برس پر محیط مسئلہ کا خاتمہ، وادی میں نئے سکیورٹی مسائل سے نمٹ اور معیشت کو بہتر کر سکے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ الحاق اور اس وقت کے آرٹیکل 370، جس میں اب ترمیم کر دی گئی ہے، کے عواقب پر ہم بحث کر چکے ہیں۔

جہاں تک سکیورٹی کا تعلق ہے، حکومت کا اندرونی اور سرحد پار خطرات کے بارے میں موقف درست ہو سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اور نہ ہی اس بارے میں کوئی تفصیل دی گئی ہے کہ حکومت نے کسی خراب صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامات کیے ہیں۔

مگر اب تک جو شواہد موجود ہیں ان کے مطابق ڈائریکٹ رُول یا براہ راست حکومت سکیورٹی کو یقینی نہیں بناتے۔ بلکہ اس سے ریاست کے گیارہ میں سے آٹھ مسلم اکثریتی اضلاع میں غم و غصہ بڑھے گا اور خدا نہ کرے مگر خدشہ ہے کہ اس سے شدت پسندی کی مدد و حمایت میں اضافہ ہوگا۔

جہاں تک ریاست کی ترقی اور سرمایہ کاری کی بات ہے تو ہماری معیشت پہلے ہی مشکل میں ہے اور سرمایہ کار پُرامن ریاستوں میں بھی سرمایہ لگانے پر تیار نہیں چہ جائیکہ جموں و کشمیر جیسی شورش زدہ ریاست میں۔

تاریخ شاہد ہے کہ اس سے پہلے کی حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو کھوکھلا کرنے کی جتنی بھی کوششیں کیں، جو حالیہ اقدام کے مقابلے میں کہیں کم جرات مندانہ تھیں، انھوں نے مرکز اور ریاست کے تعلق پر بتدریج جو دباؤ ڈالا وہ 1990 کی شورش پر منتج ہوا، جسے کمزور کرنے میں 15 برس لگ گئے۔

ممکن ہے کہ ہماری افواج کچھ عرصے تک کشمیریوں کے غیض و غصب کو کچھ وقت تک دبا سکیں، مگر کب تک اور پھر ہم اپنے فوجیوں کو کب تک وہاں رکھ سکیں گے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے پر احتجاج

تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سنہ 2000 سے 2010 تک کے عشرے میں کشمیریوں میں جو نئی امید پیدا ہوئی اس کا سبب علیحدگی پسندوں سے مذاکرات، ریاستی حکومت کو زیادہ اختیارات کی تفویض، انتظام و انصراف میں بہتری اور سکیورٹی حصار کی ایسی تنظیم نو کہ لوگوں کو روز مرہ معمولات کی ادائیگی میں کم سے کم پریشانی ہو جیسے اقدامات تھا۔

میڈیا اور ملک میں عوامی حمایت کو مد نظر رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر ان حقائق کو پروپیگنڈے سے بدل لیا ہے اور ان لوگوں کا ہمیں کوئی احساس نہیں جو اس سے براہ راست متاثر ہوں گے یعنی ریاست کے رہنے والے۔

اتنی ہی قابل افسوس یہ حقیقت بھی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم نے تمام بنیادی جمہوری اصولوں اور معیارات کو بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ کیا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمل صرف جموں و کشمیر تک محدود رہے گا؟ یقیناً نہیں۔

مجھے خوشی ہوگی اگر کوئی مجھے قائل کر دے کہ میں غلط ہوں۔ مگر اب تک حکومت کے کسی ترجمان نے ان سوالات کے ٹھوس جوابات نہیں دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp