ہلاکو خان، بغداد کے کوے اور اسمبلی کا اجلاس


روایت ہے کہ ہلاکو خان نے جب بغداد پر فیصلہ کن حملہ کیا تو اہل علم اس اہم ایمانی مسئلے پر باہم دست و گریباں تھے کہ کوا حلال ہے یا نہیں۔ اس سے کلام نہیں کہ روایت سچ ہے یا نہیں لیکن سبق آموز ضرور ہے کہ یقینی تباہی دیکھتے ہوئے بھی غیر اہم سے معاملے پر آپس میں لڑائی بھڑائی جاری تھی۔ ہاں یہ تسلیم کہ ہم دنیا داروں کی نظر میں ہلاکو خان کی بہ نسبت یہ کوا غیر اہم تھا، دوسری دنیا پر گہری نگاہ رکھنے والے علما حضرات کی نگاہ میں یہ کوا ہلاکو خان سے زیادہ اہم ہو سکتا ہے۔ بہرحال ہلاکو آیا۔ سب کو مارا۔ بغداد میں بس کوا ہی زندہ بچا۔

اب ایسا ہوا کہ ادھر پنج پیر پہاڑ کے پرلی طرف کشمیر میں نریندر مودی آیا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے سامنے ہلاکو خان کھڑا ہے۔ اور پاکستان کی اسمبلی میں کوے کو حلال کیا جا رہا ہے۔ کل پہلا اجلاس تھا تو وزیراعظم تشریف نہ لائے۔ مودی کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی تو اپوزیشن نے پوچھا کہ میاں اس میں وہ 370 وغیرہ کے ختم کیے جانے کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ خیر لڑ بھڑ کر کوے کا یہ ایک پر ایک طرف لگایا گیا۔ پھر اگلا جھگڑا ہوا کہ وزیراعظم عمران خان اس وقت تک اسمبلی میں نہیں آئیں گے جب تک اپوزیشن اچھے بچوں کی طرح چپ کر کے ان کی تقریر نہیں سنے گی اور ان کے خلاف نعرے نہیں لگیں گے۔

اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ پہلے ہمارے جن بندوں کو نیب وغیرہ وغیرہ کے ہوائی مقدمات میں اندر کر رکھا ہے ان کے پروڈکشن آرڈر تو جاری کرو۔ رو پیٹ کر دو تین اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے لیکن رانا ثنا اللّہ ،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ خیر شہباز شریف اور وزیراعظم میں کچھ مفاہمت ہوئی اور تقریر ہو گئی۔

آج پھر اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا جو ابھی تک نہیں ہو سکا۔ ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا کہ کوا حرام کیا جائے یا حلال۔ اس لئے خوب غل مچا ہوا ہے۔ آج حکومت نے مہربانی کر کے شاہد خاقان عباسی کا پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا مگر انہوں نے یہ کہہ کر اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا کہ بقیہ اسیر ممبران کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا گیا تو وہ بھی شرکت نہیں کر سکتے۔

جب ہلاکو خان حملہ کرے تو اپنے چھوٹے موٹے اختلافات کو بھلا کر متحد ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے لئے کیا اہم ہے، وہ مبینہ کرپشن جو کئی ارب روپے سے شروع ہو کر عدالت تک پہنچتے پہنچتے کروڑ ڈیڑھ کروڑ رہ جاتی ہے، ایک دو ملین ڈالر کے مبینہ کرپٹ فلیٹ، یا متحد ہو کر بھارت کا سامنا کرنا؟ لیکن ہم متحد ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہمارا خیال ہے کہ پہلے کوے کا فیصلہ کر لیا جائے اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ ہلاکو کیا کر رہا ہے۔ ویسے بھی پریشانی کی بات تو ہے نہیں، ہلاکو مارے گا تو سب جنت میں ہی جائیں گے نا، لیکن کوے کا فیصلہ نہ کیا گیا تو کہیں حرام کوے کے سبب جنت کے دروازے بند نہ ہو جائیں۔

مناسب ہوتا کہ اس وقت نہ صرف محبوس ممبران کو اسمبلی میں لایا جاتا، بلکہ نواز شریف، محسن داوڑ اور علی وزیر کو بھی تقریر کرنے کی خصوصی دعوت دی جاتی۔ ان تینوں کی حکومت سے لڑائی ہے ریاست سے نہیں۔ یہ پاکستان کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر ہم صرف خود کو محب وطن اور باقی پاکستانیوں کو غدار جاننے کے خناس میں مبتلا ہیں تو پھر ہلاکو ہی آئے گا اور کوے بولیں گے۔

وزیراعظم اور افسران قضا و قدر کو قائل کرنے کے لئے ہمارے پاس ابن عربیؒ و رومیؒ کی کوئی روایت تو نہیں ہے لیکن جنگ قادسیہ یاد آتی ہے۔ ابو محجن ثقفی کے بارے میں روایت ہے کہ وہ عرب کے مشہور شاہسوار تھے لیکن شراب کے عادی تھے۔ جب قادسیہ کا معرکہ ہوا تو انہیں شراب نوشی کے باعث سپہ سالار حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے قید میں ڈال رکھا تھا۔ حضرت سعدؓ خود بیماری کے سبب جنگ میں شامل ہونے سے قاصر تھے۔ ابو محجن ثقفی نے ان سے درخواست کی کہ مجھے جنگ میں شامل ہونے دو، دن ڈھلنے پر میں واپس قید خانے میں آ جاؤں گا۔ حضرت سعدؓ نے درخواست ٹھکرا کر انہیں واپس قید خانے میں بھیج دیا۔

جنگ گرم ہوئی اور مسلمانوں کا لشکر مشکل میں گرفتار ہوا۔ ابو محجن ثقفی نے بے قرار ہو کر حضرت سعد کی اہلیہ ام سلمیٰ کے پاس پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ میری بیڑیاں کھول دو اور حضرت سعدؓ کے ہتھیار اور گھوڑا دو، میں شام کو واپس آ کر قید ہو جاؤں گا۔ ام سلمیٰ نے انکار کیا۔ ابو محجن ثقفی نے مایوس ہو کر درد بھرے اشعار پڑھے تو ام سلمیٰ نے بے قرار ہو کر انہیں کھول دیا اور ہتھیار دے دیے۔ وہ بے مثال شجاعت سے لڑے۔

حضرت سعدؓ معرکہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اس شاہسوار کو دیکھا جو ایرانیوں کی صفیں الٹ رہا تھا اور حیران ہو کر کہا کہ اس کی گھوڑی بالکل میری گھوڑی جیسی ہے اور اگر ابو محجن ثقفی قید نہ ہوتا تو اس کے لڑنے کا انداز دیکھ کر مجھے یقین ہوتا کہ وہ لڑ رہا ہے۔ شام ڈھلے ابو محجن ثقفی نے قید خانے واپس آ کر بیڑیاں پہن لیں۔ حضرت سعدؓ کو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ دشمن کو نقصان پہنچانے والا یہ شخص ابو محجن ثقفی ہی تھا تو انہوں نے ابو محجن ثقفی کو قید سے رہا کر دیا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے بیرونی دشمن سے نمٹیں اور اس کے بعد اپنے سیاسی بدلے لیتے رہیں تو مناسب ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar