ہمارے زمانے کا اسکول کیسا تھا؟ (مکمل کالم)


آج کل کے بڑے بڑے انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھائی ہو نہ ہو ’پیرنٹ ٹیچر میٹنگ‘ ضرور ہوتی ہے، اس ملاقات میں والدین سے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں بات چیت کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر ان کا بچہ کس مضمون میں کمزور اور کس میں بہتر ہے۔ پہلے میں ان ملاقاتوں میں جایا کرتا تھا لیکن پھر میں نے جانا کم کر دیا اور اب بالکل نہیں جاتا، وجہ اس کی یہ ہے کہ جو باتیں وہاں طے ہوتی تھیں ان پر عمل نہیں ہوتا تھا، مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ مشقت محض خانہ پری کی غرض سے کی جاتی ہے۔ لیکن اس سے بھی اہم وجہ یہ تھی کہ ان ملاقاتوں میں جن اساتذہ سے پالا پڑتا تھا وہ اپنی شکل، گفتگو اور شخصیت کے اعتبار سے استاد لگتے ہی نہیں تھے۔ وہ والدین کے سامنے سر جھکا کر، مودب انداز میں یوں ’سر/میڈم‘ کہہ کر بات کرتے تھے جیسے والدین وہاں اپنے بچے کے استاد سے نہیں بلکہ ٹی وی بیچنے والے کسی سیلز مین کے پاس آئے ہیں جس کا کام بس گاہک کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔

میں کریسنٹ ماڈل اسکول میں پڑھا ہوں، اس کا شمار لاہور کے بہترین اسکولوں میں ہوا کرتا تھا، اسکول کی عمارت بہت شاندار تھی، وسیع و عریض میدان تھے، کشادہ کلاس روم تھے، کمپیوٹر لیب اور سائنس لیبارٹریاں تھیں۔ جتنی ہمارے اسکول کی پارکنگ تھی اتنی جگہ میں آج کل یہ بڑے بڑے انگریزی اسکول سما جائیں، جبکہ فیس ان اسکولوں کی اس قدر زیادہ ہے کہ اچھا خاصا کھاتا پیتا بندہ بھی مشکل سے ہی بھرنے کے قابل ہوتا ہے۔ جس کریسنٹ ماڈل اسکول کی میں بات کر رہا ہوں وہ اسکول اپنے پورے کرو فر کے باوجود نہایت مناسب فیس وصول کرتا تھا جس کا آج کل کوئی تصور ہی نہیں۔ ہمارے اسکول کا آڈیٹوریم، جس میں روزانہ اسمبلی ہوا کرتی تھی، اتنا بڑا تھا کہ اس حجم کا ہال شاید اب پاکستان کے کسی نئے اسکول میں نہ ہو۔ اور اسمبلی کا احوال بھی سن لیں۔ اسمبلی کی شروعات تلاوت کلام پاک سے ہوا کرتی تھیں، کسی کسی دن حمد یا نعت بھی پڑھی جاتی تھی، اس کے بعد اسلامیات کے استاد ریاض صاحب کسی آیت یا حدیث کی تشریح کرتے اور ایک مختصر سا لیکچر اخلاقیات پر دیتے تھے، پھر کوئی طالب علم انگریزی یا اردو میں خبریں پڑھتا، کبھی کبھار پرنسپل یا ہیڈ ماسٹر صاحب بھی گفتگو کیا کرتے اور طلبا کو کسی ’اہم معاملے پر اعتماد میں لیتے تھے‘ اور پھر اسمبلی کا سیشن قومی ترانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا تھا۔ جمعے کے روز قومی ترانے سے پہلے تمام طلبا ’چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا‘ بھی گایا کرتے تھے اور غالباً اًسی دن قومی پرچم بھی لہرایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں نتائج کا اعلان بھی اسمبلی میں سب کے سامنے کیا جاتا تھا اور کسی بچے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی تھی، آج کل اگر کسی بچے سے پوچھو کہ تمہاری جماعت میں دوستوں کے کتنے نمبر آئے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ ’پاپا یہ ہم کسی سے نہیں پوچھ سکتے۔ ‘ اور میرا جواب ہوتا ہے ’لاحول ولا قوة۔‘

آج کل کے اسکولوں اور ہمارے زمانے کے اسکول میں ایک اور فرق غیر نصابی سرگرمیوں جیسے بزم ادب، تقریری مقابلوں اور سپورٹس ڈے کا بھی ہے۔ یہ چیزیں آج کل کے اسکولوں میں بھی ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ اسپورٹس ڈے کی مثال لے لیں۔ ہمارے اسکول کا سالانہ سپورٹس میلہ تو ایسے کمال کی تقریب ہوتی تھی کہ ہمیں لگتا تھا جیسے یہ اولمپک کے مقابلے ہیں، کوئی تیراکی میں تمغہ جیتتا تھا تو کوئی دوڑ میں، رنگا رنگا پی ٹی ہوتی تھی، ریلے ریس ہوتی تھی، ہاکی اور کرکٹ کے میچ ہوتے تھے، کرکٹ کا میدان ایسا تھا کہ وہاں بلا مبالغہ بین الاقوامی میچ منعقد کروایا جا سکتا تھا، بائیس گز کی پچ ہوتی تھی جس پر ہم بالنگ کیا کرتے تھے اور ہمارے اسپورٹس کے استاد ایمپائر کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ہاکی کا میدان بھی ایسا ہی تھا، اس کے علاوہ باسکٹ بال کورٹ اور جمنیزیم بھی تھا، جمنیزیم کے ساتھ دو بہترین سوئمنگ پول تھے جہاں ہر ہفتے باقاعدگی سے سوئمنگ سکھائی جاتی تھی۔ میں نے جتنی خصوصیات کریسنٹ ماڈل اسکول کی گنوائی ہیں، میرا نہیں خیال کہ آج کل کے کسی مہنگے سے مہنگے اسکول میں بھی یہ تمام خصوصیات موجود ہوں گی، آج کل کے اسکول تو کیا کالج بھی چار کنال میں کھل جاتے ہیں، جبکہ ہمارا اسکول شہر کے وسط میں کئی ایکڑوں پر پھیلا ہوا تھا۔

اب کچھ بات اساتذہ کی بھی ہو جائے۔ ایک ایک استاد سونے میں تولنے کے لائق تھا، ان کی شخصیت کا اچھا خاصا رعب ہوا کرتا تھا، ویسے تو ہمارے اسکول کے طلبا بھی کم نہیں تھے، ہم بھی انہیں خاصا ’ٹف ٹائم‘ دیتے تھے لیکن اس کے باوجود ان اساتذہ کا آج کل کے نوجوان لڑکے لڑکیوں سے کوئی موازنہ نہیں جو والدین کو ’کسٹمر‘ سمجھ کر ان کے آگے بچھے چلے جاتے ہیں۔ والدین کی بات چھوڑیں یہ بیچارے ٹیچر تو بچوں کے بارے میں بات کریں تو جمع کا صیغہ لگا کر یوں ادب سے بات کرتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے وہ بچے کے استاد نہیں بلکہ اس کے باپ کے کارخانے میں ملازم ہیں۔ ’حارث بہت قابل ہیں بس ان کا فوکس پڑھائی میں کم ہے، انہیں چاہیے کہ اپنی لکھائی بہتر کریں، ان میں بہت قابلیت ہے۔ ‘ جبکہ ہمارے اساتذہ طلبا کو اپنے بچوں کی طرح پڑھاتے بھی تھے اور کبھی کبھار مار سے کام بھی لیا کرتے ہیں۔ یقیناً ”میں یہاں بچوں کو مارنے کی حمایت نہیں کر رہا مگر جس جدید انداز میں آج کل بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے اس کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے اساتذہ کی اپنے مضمون پر گرفت بہت مضبوط تھی، ان کے سمجھانے کا طریقہ ایسا تھا کہ کسی بچے کو ٹیوشن رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی، کم ازکم میں نے اپنے اسکول کے زمانے میں کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی جبکہ آج کل حال یہ ہے کہ آپ چاہے اسکول کی ماہانہ پچاس ہزار فیس ہی کیوں نہ بھر رہے ہوں، بچے کو پھر بھی ہر مضمون کی علیحدہ ٹیوشن ضرور رکھوانی پڑتی ہے۔ اصل میں یہ اسکول نہیں بلکہ برینڈڈ اسٹورز ہیں جہاں ہم اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں تاکہ یہ ٹھپا لگ سکے کہ ہمارا بچہ فلاں برینڈ کے اسکول میں پڑھتا ہے۔ ان مہنگے اسکولوں میں صرف ایک بات پر توجہ دی جاتی ہے اور وہ ہے انگریزی، اس کے علاوہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان اسکولوں کو ہمارے زمانے کے اسکولوں سے ممتاز کرتی ہو۔

اب تک کی باتوں سے کچھ لوگ یقیناً یہ سمجھیں گے کہ ہر شخص کو چونکہ اپنا زمانہ ہی بہتر لگتا ہے اس لیے مجھے بھی آج ناسٹلجیا کا دورہ پڑا ہے جس کی وجہ سے مجھے اپنے اسکول کی ہر بات یاد آ رہی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے، ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں ہمارے بزرگ بھی یہی کہتے ہوں جو آج میں اپنے زمانے کے بارے میں کہہ رہا ہوں مگر اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جو زوال ہماری آنکھوں کے سامنے گزشتہ بیس تیس برسوں میں آیا ہے اس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہاں ’اپنے زمانے‘ سے آپ یہ مت سمجھیئے گا کہ میں قبل از مسیح کا ذکر کر رہا ہوں، یہ تمام اسی کی دہائی کی باتیں ہیں۔ آج کل کے زمانے میں چونکہ والدین کے پاس وقت نہیں ہے اس لیے وہ اپنے بچوں کو ان مہنگے اسکولوں میں داخل کروا کے اور ان کی بھاری فیس بھر کے خود کو تسلیٰ دیتے ہیں کہ ہم نے محبت کا حق ادا کر دیا جبکہ محبت، چاہے اولاد سے ہو، بیوی سے یا محبوبہ سے، اسے ثابت کرنے کے لیے پہاڑ کھود کر نہر نکالنے جیسی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ یہ مشکل کام چونکہ اب ہم سے نہیں ہوتا اس لیے ہم نے اس کام کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے حوالے کر دیا ہے اور ہم اس کمپنی کی فیس بھر کے خود کو فرہاد جیسا عاشق سمجھنے لگ گئے ہیں۔ حالانکہ ’یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے، اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ ‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments