گلگت: کم عمر لڑکی مبینہ ریپ کے بعد تھانے میں رہنے پر مجبور


گلگت

Abdul Rehman Bukhari

‘بچی زیادہ بات نہیں کر پاتی۔۔۔ جب آئی تو ہر وقت روتی رہتی تھی۔ ہمارے تھانے میں رہتے ہوئے اس کو پانچ دن سے زیادہ ہو گئے ہیں۔۔۔ اس کی والدہ بیمار ہیں، والد نے خودکشی کر لی اور کوئی رشتے دار اسے اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں ہے۔ یہاں ہم نے اسے ایک کمرہ دیا ہے۔ عملہ ہوتا ہے اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لیے اسے یہاں رکھا گیا ہے۔’

یہ گلگت میں موجود ویمن پولیس سٹیشن ہے، جہاں ایک مرد محرر کے علاوہ باقی سب عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ لیکن اب یہاں مبینہ طور پر اغوا اور ریپ کا شکار ہونے والی ایک بچی بھی مقیم ہے۔

پولیس کی رپورٹ میں اس کی عمر تقریباً چودہ برس لکھی گئی ہے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اس سے بھی چھوٹی ہو سکتی ہے۔اطلاعات کے مطابق بچی 27 جولائی کو لاپتہ ہوئی اور اس کے والد نے 29 جولائی کو پولیس میں اس کی گمشدگی کے حوالے سے رپورٹ درج کروائی تھی۔

مزید پڑھیے

’پاکستان میں ہر روز 9 بچے جنسی زیادتی کا شکار‘

’بچوں سے دوستانہ ماحول میں بات کریں‘

چاند چڑھے گا تو دنیا دیکھے گی!

تاہم لڑکی ایف آئی آر درج ہونے کے ایک گھنٹے بعد گھر لوٹ آئی اور پولیس نے اس کے ہمراہ ان تمام جگہوں کا دورہ کیا جہاں اسے رکھا گیا تھا۔

بی بی سی نے واقعے کی تفصیل جاننے کے لیے پولیس حکام سے رابطہ کیا، تاہم متعدد کوششوں کے باوجود کوئی بھی اعلیٰ عہدے دار بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔تھانے کے عملے کی جانب سے ملنے والی معلومات کے مطابق ایس پی، ڈی آئی جی اور ایس اچ او سمیت تمام حکام اس کیس کی تفتیش میں مصروف ہیں۔

’پہلے ایسا سننے میں نہیں آیا‘

تھانے کے عملے نے بتایا کہ خواتین کی خودکشی اور تشدد کے کیس تو عموماً سامنے آتے ہیں، لیکن اس علاقے میں بچی سے جنسی زیادتی کے واقعات کم ہی رپورٹ ہوئے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی طبی رپورٹ میں ثابت ہوا ہے کہ بچی کے ساتھ واقعی جنسی زیادتی ہوئی ہے اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل نے اسے قانونی امداد کی پیشکش کی گئی ہے۔مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ بچی کا تعلق ایک پسماندہ گھرانے سے ہے اور وہ کسی کے گھر میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔

جس دن اس کی گمشدگی کا واقعہ پیش آیا، اس روز بھی متاثرہ بچی کام پر گئی ہوئی تھی اور اسے ایک نامعلوم خاتون نے بہانے سے اپنی بچی کے ذریعے باہر بلوایا اور پھر اسے مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا۔

یہی کوائف ایف آئی آر میں بھی درج ہیں، تاہم مقامی صحافی سادات علی کا کہنا ہے کہ پولیس اس کیس کے حوالے سے مزید کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کر رہی۔

گلگت

والد کی خودکشی

لڑکی کی بازیابی کے بعد دو اگست کو اس کے والد نے چنار باغ کے مقام پر سی ایم ہاؤس کے قریب دریا گلگت میں کود کر اپنی جان لے لی۔

واقعے کے بعد مقامی صحافی مسعود احمد نے بچی اور اس کے لواحقین کے ساتھ انٹرویو کر کے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

بچی کے چچا نے اس انٹرویو میں الزام لگایا کہ ان کے بھائی نے پولیس کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی۔

بی بی سی نے جب مقامی پولیس سے رابطہ کر کے کیس کے حوالے سے موقف جاننا چاہا تو ایس ایچ او مریم کی جانب سے ایک تحریری بیان بھجوایا گیا۔ بیان کے مطابق اب تک کیس میں پولیس کی کوتاہی کہیں بھی ثابت نہیں ہوئی۔ ’کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے بعد آپ سے تفصیلات شیئر کی جائیں گی۔‘

گرفتاریاں اور ڈی این اے ٹیسٹ

ایس ایچ او کے مطابق اس کیس میں نامزد ملزمہ اور ایک 18 سالہ نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن کا ڈی این اے بھی ٹیسٹ کے لیے بھجوایا گیا ہے۔

متاثرہ بچی اور اس کے لواحقین کی ویڈیوز اب سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کے مطابق یہ متاثرہ بچی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

گلگت میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی چائلڈ پروٹیکشن سنٹر بھی نہیں ہے۔ سنہ 2017 میں گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چائلڈ پروٹیکشن بل کی منظوری دی تھی، لیکن اس کے تحت بننے والے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ اب تک فعال نہیں ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp