اولگا مسک: روس کی ’تيانانمن لڑکی‘ کا احتجاج وائرل ہو گیا


اولگا

Vera Oleinikova
سترہ سالہ اولگا نے بے خوف و خطر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا

بلٹ پروف جیکٹ پہنے ایک نوعمر لڑکی روس کی پولیس فورس کے سامنے بیٹھی ہے۔

اس کے ہاتھ میں روس کے آئین کی کتاب ہے جو اس نے اپنے ارد گرد موجود مسلح پولیس دستے کے سامنے اونچی آواز میں پڑھنا شروع کی۔ پولیس دستے کے پیچھے روس کے دارالحکومت ماسکو کی ڈوما اسمبلی یعنی شہری اسمبلی کے شفاف انتخابات کے مطالبے پر ایک مظاہرہ ہو رہا تھا جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔

یہ تصویر چند منٹوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور سترہ سالہ اولگا میسک روس کی جمہوریت پسند تحریک کا چہرہ بن کر سامنے آئیں۔ ان کی اس تصویر کا سنہ 1989 میں چین کے شہر بیجنگ کے تیانانمن سکوائر میں ٹینکوں کے راستے میں کھڑے ہونے والے شخص کی تصویر سے موازانہ کیا جا رہا ہے۔

اولگا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت روس میں صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’تیانانمن سکوائر پر مظاہرین کے خلاف کارروائی درست تھی‘

غزہ کا ’ڈیوڈ‘: احتجاج کی علامت

ہانگ کانگ میں 20 لاکھ افراد کا تاریخی احتجاج

حوالگی قانون کے خلاف ہانگ کانگ میں مظاہرے

Protester stands in way of Chinese tanks in Beijing, 5 June 89

اولگا کو چین کے تيانانمن سکوائر مظاہروں کے دوران کھینچی گئی اس تصویر کے مرکزی کردار ’ٹینک مین‘ سے تشبیہ دی جا رہی ہے

’حکام اس وقت بہت خوفزدہ ہیں اور وہ پرامن مظاہرین کو پکڑنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں سے مسلح افواج کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ اور میں دیکھ رہی ہوں کہ لوگوں کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے‘۔

ماسکو میں ستمبر میں شہر کی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں آزاد امیدواروں کی نااہلی کے خلاف ہر ہفتے کے اختتام پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔

اولگا ستمبر میں ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج صرف آنے والے انتخابات کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد سویت یونین کے بعد مرتب کیے جانے والے اس آئین سے انحراف کو اجاگر کرنا ہے جو روسی عوام کے حقوق کا ضامن ہے۔

اولگا کا کہنا ہے کہ وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتیں۔

’میں یہ صرف اپنے لیے اور لوگوں کے لیے کر رہی ہوں۔ میرا سیاسی کارکن الیکسی ناولنی سمیت کسی اپوزیشن رہنما کی جانب جھکاؤ نہیں ہے لیکن میں اس کی حمایت کرتی ہو جو وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

اولگا

Vera Oleinikova
اولگا پولیس اہلکار کو آئین کی کتاب دکھا رہی ہیں

موقف اپنانا

اولگا کی سیاست میں دلچسپی گذشتہ برس بڑھی تھی۔

وہ اس وقت 16 برس کی تھیں اور سوشل میڈیا پر خواتین کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی عمر 55 برس سے بڑھا کر 60 برس کرنے اور مردوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 برس سے بڑھا کر 65 برس کرنے کی حکومتی تجویز کے خلاف مظاہرے دیکھتی تھیں۔ ان مظاہروں سے ان کی سیاست میں دلچسپی بڑھی۔

اولگا کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والی ہوں لیکن مجھے اس میں ناانصافی نظر آئی۔

’مجھے سیاستدانوں پر غصہ تھا کیونکہ صدر پوتن نے خود وعدہ کیا تھا کہ وہ اس میں اضافہ نہیں کریں گے مگر پھر انھوں نے اس پر دستخط کر کے اس کو اکتوبر 2018 میں قانون کا حصہ بنا دیا۔‘

27 جولائی کو ماسکو میں ہزاروں مظاہرین میں اولگ بھی شامل تھیں۔ یہ مظاہرہ ماسکو کی شہری اسمبلی ڈوما کے انتخابات میں حصہ لینے والے اپوزیشن کے کارکنوں پر پابندی کے خلاف تھا۔ اس احتجاج سے قبل متعدد نمایاں اپوزیشن رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا تھا۔

اس مظاہرے میں اپنے پیچھے کھڑے پولیس کے اعلیٰ دستوں کے سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھی اولگا نے بلا کسی خوف اپنے ہاتھ میں 1993 کے روسی آئین کو تھامے اونچی اونچی پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس کی چار شقیں پڑھیں۔

’ایک شق جو پرامن احتجاج کا حق دیتی ہے۔ ایک شق جو کہتی ہے کہ ہر کوئی انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے، ایک اظہار رائے کی آزادی سے متعلق اور یہ کہ عوام کی خواہش اور قوت ملک کے لیے سب سے اہم چیز ہے۔‘

ان کی تصاویر کو ہزاروں مرتبہ سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا۔

اولگا

Vera Oleinikova
اولگا کو ان کے احتجاج کے بعد 12 گھنٹے تک زیر حراست رکھا گیا

اولگا یہ شقیں پڑھنے کے بعد مظاہرے کی جگہ سے چلی گئیں لیکن بعد میں ان کو میٹرو سٹیشن جاتے ہوئے راستے سے گرفتار کیا گیا۔

وہ ان ایک ہزار مظاہرین میں سے تھیں جنھیں 27 جولائی کی ریلی کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں گذشتہ تین ماہ میں چار مرتبہ زیر حراست رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر مرتبہ پرامن احتجاج کر رہی تھیں۔

البتہ پولیس نے ان کے ساتھ برا رویہ نہیں برتا لیکن اولگا کہتی ہیں کہ جب انھوں نے طبیعت کی خرابی کا کہا تھا تو پولیس نے ان کی ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کی درخواست رد کر دی تھی۔ انھیں 12 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا اور ان پر غیر قانونی احتجاج میں شرکت کرنے پر 20000 روبلز (305 ڈالرز) جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

’میں مختلف ہوں‘

اولگا کا کہنا ہے کہ وہ ’ملک کی دیگر نوجوان خواتین سے مختلف ہیں۔

’روس میں بہت سے نوجوان خواتین سیاسی طور پر متحرک نہیں ہیں، صرف وہ ہیں جو صحافت پڑھنا چاہتی ہیں، میں مختلف ہوں لیکن یہ کوئی اصول نہیں ہے۔‘

اولگا کو اپنی سیاسی بے باکی سے نقصان کا خوف نہیں ہے لیکن وہ اس پر فکرمند ہیں کہ وہ اب بھی اٹھارہ برس سے کم ہیں اور اپنے والدین کی مدد پر انحصار کرتی ہیں۔‘

روس

ان مظاہروں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

سوشل سروسز والے ان کے والدین کے پاس ان کے احتجاج کے بارے میں بات کرنے آئے تھے جس نے ان کی والدین کو پریشان کیا لیکن اولگا کا کہنا ہے کہ یہ انھیں احتجاج اور ریلیوں سے دور نہیں کر سکتا۔

روس میں احتجاج

ماسکو میں شہری اسمبلی ڈوما کے انتخابات میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کی نااہلی کے خلاف مظاہرے کیے گئے جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔

روس مظاہرے

حکومت کی جانب سے ان مظاہروں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ مظاہرین حکومتی اقدام کو روس کے آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔

روس

حکومت نے مظاہرین کے احتجاج کو روکنے کے لیے بڑی تعداد میں پولیس اور نیم فوجی دستے ماسکو طلب کیے ہیں۔ مظاہرین کو ماسکو کی اہم شاہراؤں پر مظاہرے سے روکنے کے لیے پولیس تعینات کی گئی ہے۔

روس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp