محبت میں پاگل طبقہ اور اس کے گرد مضبوط محاصرہ


ہم سات عشروں سے بس یہی ایک راگ الاپ رہے ہیں پاکستان زندہ باد اور اس راگ کی خوب صورتی اور بھی نمو پاتی ہے جب اس میں جمہوریت زندہ آباد کا تڑکا شامل ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کہاں ہے یہ معلوم کرنے کے لئے ستر سال کی تاریخ میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس سے اندازہ ہو کہ ہاں اب نہیں ہے جمہوریت لیکن ایک وقت تھا جب نام نہاد تبدیلی والوں نے اس طبقے کا کچھ اچھا اور بلا چاہا۔ یہ تاریخ کے خرافات میں سب بڑا مذاق ہے کہ ایک ہی ٹولہ زندگی کی ہر راحت چھین کر ایک پوری قوم کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہم طبقات میں بٹے ہوئے لوگ ہیں اور ان طبقات میں جو سب سے افضل اور پرسکون طبقہ ہے وہ یہ نعرہ لگانا تو درکنار پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ حیرانی کی بات تو سنیے نا ان طبقات میں جو سب سے کمزور اور ضروریات زندگی سے محروم طبقہ ہے وہ ہفتے کے سات دن اور دن رات کے چوبیس گھنٹے پاکستان سے محبت کا اظہار ہی کرتا ہے۔ اس طبقے کو بجلی پانی اور خوراک تک میسر نہیں ہوتا لیکن حب الوطنی میں ان کا ثانی پوری دنیا میں نہیں۔

سوچنے میں انسان کا بھلا کیا جاتا ہے آپ پورے ملک پر نظر ڈالئے نا جن کو گرمیوں کے قیامت بھرے لمحات میں پانی کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور جب پیاس زندگی لینے پر اتر آتا ہے تو میلوں دور سے یہ سہولت لائی جاتی ہے۔ سارا دن محنت مزدوری کے بعد جب آرام کا وقت ہوتا ہے تو گھر میں پڑے بیمار آرام کرنے نہیں دیتے اور پھر جب یہی طبقہ ہسپتال کا چکر لگالیتا ہے تو وہاں پہلے والا پرسکون طبقہ ان کے چودہ طبق روشن کردیتا ہے۔

چند نوالوں کے لئے اس طبقے کے لوگ سارا دن ہزار بار مرتے ہیں لیکن مجال ہے جو کوئی ان کے سامنے پاکستان کا کچھ برا کہے۔ حیرانی کی ہی تو بات ہے اس طبقے کا سب سے بڑا دشمن وہ ہوتا ہے جو پاکستان کی برائی کرتا ہے یا پاکستان کو بری آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ مرنے کی جب باری آتی ہے تو مرتا بھی یہی طبقہ ہے۔ یہ کھیل بڑا پرانا ہے جس کو دیکھ کر انسانی عقل حیران ہوجاتی ہے۔

جس طبقے کو زندگی کی ہر سہولت میسر ہوتی ہے وہ کیونکر اس طبقے کا درد محسوس کریں۔ درد تو دور کی بات ہے اس طبقے کا باقاعدہ مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے سہولتوں سے محبت کرنے والے اور سہولتوں میں گھرے زندگی سے لطف اٹھانے والے سب ملے ہوِئے ہیں بس اختلاف کی اداکاری ہی کر رہے ہیں۔

ملک ٹھیک ہوگا ارے خاک ٹھیک ہوگا ذرا یہ طبقاتی نظام تو ختم کرو۔ جس طبقے کو صرف ایک بات ہی سکھا دی گئی ہے کہ تم نے مرنا ہے لیکن پاکستان سے بس محبت ہی کرنی ہے اور اس طبقے میں ناقص العقل لوگوں کا ایک جم غفیر ہے کہ جن کو چھوٹی سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ جہاں روزگار کے لئے ایسے ایسے لوگوں کے پاوں پکڑنے پڑیں جن کو الف ب بھی نہیں آتا وہاں کیسی دیوانگی۔ جہاں علاج کے لئے گردے تک بیچنے پڑے وہاں محبت کی تو کوئی تک ہی نہیں بنتی۔ کوئی سوچتا ہی نہیں کہ ہم پر ظالموں کا ایک ٹولہ مسلط کیا گیا ہے جہاں صرف باریاں بدلتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔

اب سوچیے نا پاکستان کے سیاسی قائدین کے گھروں کے اندر نہ بے روزگاری ہے، نہ بھوک و پیاس کا گھیرا ہے اور نہ محرومیاں۔ کوئی دکھا سکے تو احسان ہوگا۔

جب تک پیار و محبت میں پاگل اس طبقے کو حقیقت کی سمجھ نہیں آئے گی تب تک ایسے ہی روز ان کے گرد محاصرہ موجود رہے گا۔ یہ محاصرہ توڑنا ہوگا ورنہ اگر یہ طبقہ ختم ہوگیا تو پھر پاکستان کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).