ٹی وی چینل: جس کا کھانا اُس کا گانا


وسیم بادامی کا ایلیونتھ آور دیکھنے کو ملا، جس میں تین مختلف جماعت کے نمائندگان مدعو تھے۔ جب کہ پی ٹی آئی کی جانب سے فیصل جاوید تشریف فرما تھے جو غالباً سینیٹ کے انتخاب کے حوالے محو گفتگو تھے اور صادق سنجرانی کی جیت کے بارے میں ازبس یقین یافتہ تھے۔ حسب روایت بادامی اور فیصل جاوید اپنی باری میں بھی اور دوسروں کے باری میں بھی بولتے گئے اور یوں وقت ختم ہوگیا۔ خیر سننا بھی کیا تھا نتیجہ آنے پر اگلے روز ہمیں خود ہی پتہ چل گیا۔

‏‎ایسا کوئی پہلی بار نہیں پرویز مشرف کے دور میں جب سے میڈیا آزاد ہوا نیوز چینلز کی بھرمار ہوگئی۔ مضحکہ خیز بات تو یہ کہ ہر چینل کا ہی ایک نعرہ ایک ہی دعویٰ، ہر چینل ملک کا نمبر ون چینل، ہر خبر سب سے پہلے بریک کرنے کا اعزاز اور سب سے پہلے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کا معرکہ۔ ان ہی چینلز کا اہم حصہ یہ ٹی وی ٹاک شوز ہیں جو جو پرائم ٹائم میں نشر کیے جاتے ہیں اور بالواسطہ اور بلاواسطہ خوب کما کے دیتے ہیں۔ ‎ ریٹینگ کے مقابلے میں بڑے تاریخی ٹاک شوز بھی دیکھنے کو ملے۔ شوز میں حصہ لینے والے مفکرین اور سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کا انتخاب بھی ان ہی خصوصیات کی بنا پر ہوتا ہے۔ جو ذرا گرم مزاج اور جذباتی شخص ہو۔

‏‎بہرحال لوگ بھی وہ ہی دنگل نما شوز زیادہ دیکھتے ہیں، جہاں شور، گالیاں اور الزام تراشیاں جاری ہوں اور اگر کوئی مہمان مائیک پھینک کے چلا جائے تو سمجھو پیسے وصول۔

‏‎‏‎ان اینکرز کی دوسری نمایاں (تہذیب و تمدن سے عاری) صفات میں دوسرے کی بات بیچ میں کاٹنا، چیخ چلّا کر بولنا اور دوسرے کی بات کو اپنی مرضی کا غلط رنگ دینا شامل ہیں۔ جو جتنا زیادہ تند خو اتنی زیادہ ٹی آر پی۔ یہ اینکرز جو صحافی ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں، اپنے ایک ایک لفظ کی نا صرف بھاری قیمت وصول کرتے ہیں بلکہ ذاتی حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مگر کم سے کم سب کو برابری سے بولنے کا موقع تو ملنا چاہیے۔

میزبان مہمان مل کے چلائیں گے تو باقی لوگوں کا موقف سامنے کیسے آسکتا ہے۔ اینکرز بھی آگ لگا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سب جانی دشمن ہیں، جبکہ تمام سیاستدان ذاتی سطح پر دوست ہیں۔ اور ہم عوام آپس میں لڑتے ہیں۔ ہم لوگ ایک قوم صرف ملی نغموں کی حد تک ہی ہیں، ورنہ ہم تو ہمیشہ سے ہی بٹے ہوئے ہیں اور اب ان چینلز اور اینکرز کی بدولت مذید گروہ بنتے جارہے ہیں، کیونکہ جتنے چینلز اتنی باتیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا حساس نوعیت کے ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں، جو قوم کی تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت اور معاشرے کی بھلائی کے لیے کلیدی کردار اداکر سکتے ہیں۔

مگر ماہرین کا خیال ہے کہ پرنٹ میڈیا نے تو ذمے داری کا ثبوت دیا اور معاشرے میں سنسنی و نا امیدی پھیلانے سے گریز کیا، مگر جب سے الیکٹرانک میڈیا وجود میں آیا ہے، معاشرے میں مجموعی طور پر منفی اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں۔ ٹی۔ وی چینلز پر جرم اور کرپشن کی اس قدر تشہیر کی گئی ہے کہ ان میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ حقیقتاً ایسے پرگرامز دیکھ کر مزاج میں شدت پسندی، اشتعال انگیزی پیدا ہوگئی ہے، اب ایسے شوز دیکھ کر ہر ایک دانشور بنا ہوا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس پرنٹ میڈیا نے الفاظ کی حرمت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا۔ اخبار چاہے چھوٹا ہو یا بڑا صحافتی معیار کے عین مطابق خبر اور کالم چھاپتے رہے۔ کالم لکھنے سے پہلے مکمل ریسرچ ہوتا، مبادا کوئی غلط معلومات قارئین تک نہ پہنچ جائے۔

‏‎مجھے یاد ہے ہمارے بڑے ہمیشہ تلقین اور نصیحت کرتے کہ اگر اردو ٹھیک کرنی ہے یا املا بہتر بنانا ہے تو روز اخبار بینی کا معمول بنانا چاہیے۔ اخبار پڑھنے سے سوچنے سمجھنے کا شعور پیدا ہوا، ہمارے گھر اخبار پڑھنے کے لیے سب اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے۔ اور مختلف اخبارات کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ مگراب یہ نیوز چینلز دیکھ کرمزاج میں ایک عجب ہیجان، عدم برداشت پیدا ہو گیا ہے۔ وقت کے ساتھ بہت تبدیلی آگئی، اور آنی بھی چاہیے۔ لیکن میڈیا جوں ہی آزاد ہوا ساتھ ہی بیباک بھی ہوگیا۔

‏‎‏‎اب بات کرتے ہیں کہ ان میڈیا ہاؤسز کے مالکان کون ہیں؟ مختلف با اثر لوگوں نے اپنا سرمایہ نیوز چینلز پر لگایا ہوا ہے، سونے پہ سہاگہ ان کا اخبار اور صحافت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا مقصد محض سنسنی، شر انگیزی پھیلانا اور لفافہ اینکرز کو کام پہ لگانا ہے۔ ان کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرسکتا۔ یہ اپنے مالی مفادات کے علاوہ مختلف ایجنڈوں پہ کام کرتے ہیں۔ کئی مقدمات میں گھرے رہنے کے باوجود کبھی کسی کا لائسنس منسوخ ہوا؟ یا کبھی کوئی جرم ثابت ہوا؟ نہیں۔

‏‎‎‏‎ میڈیا میں سیاست سے ہٹ کر بھی میزبان ریٹینگ کے چکر میں لوگوں سے احساس سے عاری سوال کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے کوئی معصوم بچہ جس کا باپ بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہو اور وہ کیمرے کے آگے آزردہ ٹوٹے وجود کے ساتھ بیٹھا ہے، اور میزبان (نامور معروف) اینکرز سوال کرتے ہیں، ابو یاد آتے ہیں؟ بیٹا آپ کیا سوچتے ہیں؟ اب عید کیسے منائیں گے؟ باہر کس کے ساتھ جائیں گے؟ کون نئے کپڑے دلائے گا؟

‏‎یعنی آپ لوگوں کے دکھ میں شریک ہونے نہیں ان کو رلا کر اپنے پروگرام کو ہِٹ کرنے اور دوسروں سے ریس جیتنے کے لیے ایسے شوز کرتے ہیں۔ کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ جس یتیم سے آپ ایسے بے سر و پا سوال کر رہے ہیں وہ کیسے اپنے جذبات کی عکاسی کر سکتا ہے۔

یہ تو تھی گزشتہ کم و بیش دو دہائی سے میڈیا کا حال اب آج کل میڈیا دوبارہ سے پابند سلاسل ہے۔ میڈیا پر مکمل قدغن، اشتہارات اور مالی بحران کا کہہ کرصرف ان ہی صحافی اور اینکرز کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا، جو حکومت کے ناقد تھے۔ اخبارات چینلز سے سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین برخاست کر دیے گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ پاکستان کی تمام ہی چھوٹی بڑی جماعت کو ملکی سیاست میں کوئی اختیار حاصل نہیں، بظاہر تو جمہوری دور ہے، مگر اب حکومت وقت کے علاوہ کسی کا بول بالا نہیں۔

آمریت کے دور میں آزاد ہونے والا میڈیا جمہوریت میں سینسر شپ کا شکار ہے۔ اب تمام بڑے نام جغادری سیاستدان تو ٹاک شوز میں دکھائی بھی نہیں دیتے، کچھ کو میڈیا مالکان بھی نہیں بلاتے، کچھ خود بھی احتراز کرتے ہیں کہ اب کس طرح دفاع کر یں گے، کچھ ملک بدر ہیں۔ کچھ کی مقبولیت میں کمی واقع ہو گئی ہے اورکچھ ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئے۔

‏‎آج کل عالم کچھ یوں ہے کہ پروگرامز میں چار افراد شامل گفتگو ہوتے ہیں، ایک پرومپٹر پر ہدایت پانے والا روبوٹک اینکر، دو جانبدار مبصر (جو عموماً کوئی صحافی یا دانشور ہوتا ہے ) اور ایک حکومت کا نائب۔ اور سب کا ایک ایجنڈا ایک، نظریہ ایک پیغام۔ ایک ہی ٹارگٹ۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ہر شخص کی ذاتی رائے اور پسند ہو سکتی ہے، مگر جب آپ ٹیلیویژن ہر بیٹھ کرمتعصبانہ گفتگو کریں اور کھل کر ظاہر کریں کہ آپ کس کے حامی ہیں تو کم از کم یہ زیب نہیں دیتا۔

سوشل میڈیا سیل کے paid workers اور کونسرٹ نما دھرنے سے متاثر ہونے والے بچے جن کو لگتا ہے نیا پاکستان میں سب اچھا ہوگا۔ یہ معصوم عوام جنہوں نے پہلی بار ووٹ ڈالا، یا نئی نئی سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی، وہ بے چارے پاکستان کی تاریخ سے نا آشنا ہیں اور ایسے نیوز چینلز ناصرف دیکھتے ہیں بلکہ من و عن سچ تصور بھی کرتے ہیں۔ ‎‎

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس تنظیم یا سیاستدان کا نظریہ آپ سے الگ ہے آپ اُس کی خبر تک چلانا پسند نہیں کرتے یا محض دو منٹ کی کوریج دکھائی جاتی ہے۔ اور تو اور چینلز کے نمبر تبدیل کردیے جاتے ہیں۔ اس کے بر عکس اگر شوبز میں کسی بیوی نے شوہر پہ تشدد کا الزام لگا دیا تو دونوں فریقین کی پوری ایک ایک گھنٹے کی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہے۔

اسی حوالے سے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بعض مواقع پر پیمرا بھی کہتا ہے یہ نہیں معلوم کس نے چینل بند کیا ہے۔ وزارت اطلاعات کو بھی پتا نہیں چلتا، جب نہ ریگولیٹر کو پتا ہے اور نہ وزارت اطلاعات کو تو پھر انگلیاں اسٹیبلشمنٹ پر اٹھتی ہیں۔ اُن کے مطابق اس وقت ٹی وی چینلز کو غیر اعلانیہ ہدایات ملی ہوئی ہیں کہ مختلف اصطلاحات کو میوٹ کر دیا جائے جبکہ مریم نواز کے انٹرویو کو کم سے کم دکھایا جائے۔

‏‎بحرکیف پیپلز پارٹی کے دور میں زرداری شو مسلم لیگ نون کی حکومت میں شہباز نواز شو اور اب کپتان خان شو عوام پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔ اور سب مخصوص سیاسی پارٹی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان فصیح و بلیغ صحافیوں کو بادشاہ کے دور میں اس کے عیب کیونکر پتہ نہیں چلتے۔ شاید یہ ہی ضابطہ ہے اور یہ ہی دستور عمل کہ جس کا کھانا اُس کا گانا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).